نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

اشاعتیں

ستمبر, 2019 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

کلیہ کا پہلا دن

آج پہلی بار کلیہ گیا ،مجھے بہت جھجھک محسوس ہورہی تھی ،راستے میں طرح طرح کے خیالات ابھر رہے تھے ،ویسے بھی مجھے پہلی بار کچھ کرنے میں کافی ہمت جٹانی ہوتی ہے ،خیر کچھ دیر اپنے سر کے الجھاؤ میں الجھ کر کلیہ پہچ ہی گیا ،صدر دروزے سے انٹری کرتے ہی ملازم کا سامنا ہوا اس کے برتاؤ سے لگا کہ وہ میرا ہی انتظار کر رہا تھا اب جاکر میری انقباض قلبی دور ہوتی گئی ، اور میں حساس و بشاشیت کے ساتھ کلاس میں پہچا ،درس گاہ میں طلبہ کی بھیڑ نے میری کمر توڑ دی قریب آدھا گھنٹہ دروازے پہ کھڑے ہوکر محاضرہ سننا پڑا ،جس کی وجہ سے دماغ نے سوالات کا پٹارا کھول دیا  کیا ہر روز اتنے طلبہ آتے ہیں ؟ کلاس کو گروپ میں کیوں نہیں باٹ دیا گیا ؟ ہاے دو ڈھائی سو طلبہ کے مابین صرف تین یا چار پنکھے ؟ یہ لوگ مائک کا استعمال کیوں نہیں کرتےہیں ؟ خیر محاضرہ ختم ہوا اسٹوڈنٹ باہر نکلنے شروع ہوئے ،اور مجھے اندر جانے کی اجازت مل گئی جگہ پاتے ہی میں بیٹھ گیا اگل بغل والے سے مختصر سا تعارف ہوا پھر ایک شخص آیے اور محاضرے کی کرسی پہ بیٹھ گیے طلبہ ان کی طرف متوجہ ہوئے اور آپ نے بولنا شروع کردیا ،اب تک میرا خیال تھا کہ یہ دکتو

قناۃ خیریہ

پنج تن نے رات میں بیٹھے بیٹھے قناۃ خیریہ کا پروگرام بنایا اور صبح ہوتے ہوتے تین لوگوں کےاضافے سے آٹھ لوگوں کی مشترکہ جماعت بن گئی جوکھانے پینے کی ضروریات کے ساتھ قناۃ خیریہ کے سیر کو نکل چکی۔ سیر وتفریح چونکہ مختلف مقاصد کے تحت ہوا کرتی ہے اور خاص کر جہاں مختلف افراد ہوں وہاں مقاصد میں تنوع ہونا لازمی ہے لیکن اس سفر میں کشتی کی سواری ایک مشترک تفریح تھی جس کے غالبا سبھی مشتاق تھے۔ کشتی نامہ مصر کی زینت دریائے نیل بھی ہے اور نیل کی شام "کشتی کی سواری »کا استعارہ  بھی جو کافی دلچسپ اور پر لطف ہوتاہے لیکن ہر چیز کی ایک مقدار ہوتی ہے اس کے آگے پھر اچھی نہیں لگتی یہی  آج ہمارے ساتھ بھی ہوا ,ہم لوگ پورے جوش وخروش کے ساتھ کشتی میں سوار ہوئے اور کچھ لمحے خوب مزے لوٹے لیکن اگلے ہی لمحے اکتاہٹ کے شکار ہو گئے۔ اس اکتاہٹ کی ایک وجہ تو کشتی کا لمبا سفر تھا جو تقریباً دو سے ڈھائی گھنٹے پر محیط تھا اور دوسری بڑی وجہ مصری گانے جو ڈی جے کے ساتھ بجائے جارہےتھے۔ یہ گانے ہندوستانی گانوں سے بالکل مختلف, ان کے سر تال تو کم از کم ہم ہندوستانیوں کے سر سے ماورا تھے. کئی بار دل میں آیا کہ

المہرجان سماع الدولی للانشاد و الموسیقی الروحیۃ

اج سے تقریبا بارہ سال پہلے وزیر ثقافۃ مصریہ فنان فاروق حسنی نے قبۃ غوری میں اس کی داغ بیل ڈالی تاکہ جملہ عالم کو موسیقی کے تار سے امن وسلام ٫اتحاد و اتفاق کا حسین پیغام دے سکے ایک بھلے شخص کے بھلے مقاصد تھے اسی لیے شاید اچھے بڑے لوگوں نے بھی اسکا سپورٹ کیا  یہ اپنے روز اول سے ہی مختلف ممالک کے گلوکاروں کو بلاتے ہیں اور ان سے انکی زبان میں میوزیک سنتے ہیں جس میں تمام عوام مدعو ہوا کرتی ہیں اس کی ابتدا وہ  عالمی امن کا دن 21ستمبر کو کرتے ہیں حسب معمول اس سال بھی 21ستمبر کو قلعہ صلاح الدین ایوبی میں یہ پروگرام شروع ہوگیا ہے یہ ان کا بارہواں سیزن ہے اور اب تک لگ بھگ 185ملکوں کی اس میں شرکت ہوچکی ہے  گذشتہ شب ہم لوگوں نے بھی اس میں شرکت کی٫ جاتے ہی قلعہ کے طول وعرض میں حیرانی ہوئی اتنا لمبا قلعہ!اب تو شاید چھوٹا کردیا گیا ہے ! اسی میں سماع والوں نے اپنا  جلوہ بکھیرنا تھا اس لیے چاروں اور اجالا تھا 'اسٹیج تک پہچنے کے لیے قلعہ نما محافظوں کی قطار تھی جو مختلف مصری لباس میں ملبوس تھے اور ایک جانب مصرکے پرانے انوکھے باقیات فروخت ہورہے تھے کچھ دور چل کر کرسیوں کا میلہ تھا جس

طوفان الجھل لا یوقفہ الا سد العلم

الجهالة بالعلم و العمل الصالح كانت قبل بعثة النبي( صلى الله عليه وسلم)ثم زالت بسعيه ورحمته (صلي الله عليه وسلم) ثم تبلورت بعد خلافة الراشدة الجهالة بالعمل ‘فأخذت توثر حتي ظهرت علی المسلمين و بلاد العرب الجهالة بالعلم والعمل الخير. اليوم تكثر في المجتمعات أعمال او نظريات تطلق عليها الجهالة‘لكن الناس لا يشعرون هذا‘بل اذا قيل لهم لا تفسدو في الارض قالوا إ نما نحن مصلحون الا انهم المفسدون ولاكن لا يشعرون.  لذا نحتاج اليوم أن نفسر او نحلل الجهل اولا كي يتنبه  عليه  غيره و يجتنب منه ما هو الجهل؟ أن الجهل عدم العلم: أي عدم إدراك الشيء على ما هو عليه. و ينقسم الجهل على هذا الرأي إلى بسيط و مركب: ـ الجهل البسيط: يتعلق بالأمور الحسية. ـ و الجهل المركب: يتعلق بالأمور الفكرية. الجهل البسيط: عدم الإدراك بالكلية. وهو عدم العلم بالشيء وهذا حال الإنسان عامة عندما يخلق ، قال تعالى : {وَاللَّهُ أَخْرَجَكُمْ مِنْ بُطُونِ أُمَّهَاتِكُمْ لَا تَعْلَمُونَ شَيْئًا وَجَعَلَ لَكُمُ السَّمْعَ وَالْأَبْصَارَ وَالْأَفْئِدَةَ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ} [النحل : 78] و الجهل المركب: إدراك

ما هو الجهل؟

أن الجهل عدم العلم: أي عدم إدراك الشيء على ما هو عليه. و ينقسم الجهل على هذا الرأي إلى بسيط و مركب: ـ الجهل البسيط: يتعلق بالأمور الحسية. ـ و الجهل المركب: يتعلق بالأمور الفكرية. الجهل البسيط: عدم الإدراك بالكلية. وهو عدم العلم بالشيء وهذا حال الإنسان عامة عندما يخلق ، قال تعالى : {وَاللَّهُ أَخْرَجَكُمْ مِنْ بُطُونِ أُمَّهَاتِكُمْ لَا تَعْلَمُونَ شَيْئًا وَجَعَلَ لَكُمُ السَّمْعَ وَالْأَبْصَارَ وَالْأَفْئِدَةَ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ} [النحل : 78] و الجهل المركب: إدراك الشيء على خلاف ما هو عليه. أمثلة: 1ـ أن يقال: متى كانت غزوة بدر؟ فيقول: لا أدري. فهذا جهل بسيط. ـ لأنه جهل واحد، لا يعلم شيئا. 2ـ أن يقال: متى كانت غزوة بدر؟ فيقول: في السنة الثالثة. هذا جهل مركب، إذ إن غزوة بدر كانت في السنة الثانية. مركب من جهلين، جهل بالواقع و جهل بالحال، فهو لا يدري، و لا يدري أنه لا يدري!! أيهما أقبح الجهل البسيط أو المركب؟؟ لا شك أن المركب أقبح، فالجاهل المركب شر من الجاهل البسيط، لأن الجاهل البسيط عرف نفسه فقال: لا أدري. و أما هذا فادعى أنه عالم، و ليس بعالم، فكا

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

عید ‏سعید ‏پر ‏دل ‏کی ‏کیفیت

__________________نالۂ دل___________________ کاش کہ دو دل ہوتے سینے میں ایک خوشی میں ہنستا اور دوسرا روتا غم میں!! آنکھ کھلی  تو سوچا نہا کر عید کے لیے نئے جوڑے کا انتخاب کروں، اور اسے زیب تن کرکے عطر میں ملبوس ہوکر عید کی نماز پڑھوں، اور دوستوں کے ساتھ ملکر خوشیاں بٹوروں، عید ہونے کی خوشی اتنی تھی کہ فورا بستر سے اٹھکر حمام تک پہچ گیا اور چند ہی منٹوں میں خوشی کی غسل سے فراغت حاصل کر لی ،پانی کی ٹھنڈک نے شاید  دل و دماغ کو ٹھنڈا کر دیا، جس سے ذہن بیتے لمحوں اور حادثات کو ازسر نو حاشیہ خیال پر لانے کا پروسس شروع کر چکا تھا جو کے چند لمحوں کی  نیند کے سبب ذہن کے پردوں سے اوجھل ہو چکا تھا ، اور آرام دہ نیند نے کچھ گھنٹوں کے لیے جسم و جاں کو آرام بخشا تھا ،پھر کیا جیسے ہی نئےجوڑے کی طرف ہاتھ بڑھایا دماغ نے فورا دل کو ایک زور کا جھٹکا دیا اور آنکھوں کے سامنے مظلوم فلسطینیوں اور غاصب و ظالم اسرائیل کے مابین ہوئے حادثات و واقعات گردش کرنے لگے  ”ان کی عید کیسی ہوگی  جو بچے اپنے والدین کو اپنی آنکھوں کے سامنے اسرائلی ظلم وجبر  کا شکار ہوتے ہوے دیکھ رہے ہیں؟ !! اب وہ کس کے ساتھ  عید پڑھنے چلیں

یہ ‏ضعف ‏کا ‏عالم ‏ہے ‏کہ ‏تقدیر ‏کا ‏لکھا

         میں لکھنے کا عادی نہیں اور ناہی کوئی لکھاری ہوں ،لیکن کبھی کبھی جبرا لکھنا ہوتا ہے ،کلیہ کی طرف سے لکھنے کا کام ملتا ہے ،نا چاہ کر بھی محض نمبرات کے لیے  قرطاس سیاہ کرنا  ہوتا ہے ،اس سال بھی اسائمنٹ لکھنا تھا ،فلسطین کے تازہ ترین حالات پر  ہی ایک چھوٹا سا مضمون قلم بند کرنا تھا جمع کرنے کی تاریخ قریب آگئی تو  قلم اٹھایا سوچا لکھوں ۔۔۔ لیکن کیا لکھوں ؟؟۔۔۔۔فلسطین ۔۔۔۔ کوئی قصہ عشق ہو تو لکھوں ،کسی شہزادی کی داستان ہو تو لکھوں ،تحریر کے لئے چاہیے کوئی سلگتا عنوان، کوئی اختلافی موضوع، یا کوئی سنسنی خیز خبر جیسے سیلیبریٹی کا قتل، سیاسی الٹ پھیر یا کوئی ایکسیڈینٹ ۔ یا پھر تحریر کے لئے حسن و عشق چاہیے۔ ہائی پروفائلڈ محبوبہ کی رنگین زلفوں کا اسیر مجنوں، محبت میں ناکام عاشق کی دیوانگی یا یک طرفہ محبت کا دردناک انجام، غزہ کے ان بھوکے ،بے گھر ،ستائے ہوئے، مظلوموں کے بارے میں کیا لکھوں ،جن پر خود ان کے اپنے منھ نہیں کھولتے ،جن پر اقوام متحدہ ترس نہیں کھاتی ،امن کے نمائندے جن کی نمائندگی نہیں کر رہے ہیں!! کسی کتاب یا مضمون کا خلاصہ کرنا ہوتا تو کرتا ،یہ ستر سالہ مظلومیت کی داستان کا خلاصہ

نہ من تنہا در یں خانہ مستم

اکیسوی صدی کی شروعات ہی کافی تیز رفتاری سے ہوئی۔  اگر اس کو ترقی کی صدی کہوں تو شاید غلط نہ ہو جہاں ہر چیز کافی تیز رفتاری سے ترقی پذیر ہو رہی ہے۔ جتنے زرائع ہر شئے کے لئے اس صدی میں ہیں پچھلی کسی  صدی میں موجود نہ تھے۔  وقت کے ساتھ ساتھ انسان نے  اپنے نا صرف طرز زندگی کو بدلا بلکے برتاو و معاملات کے طریقوں میں بھی کافی تبدیلی کی۔ گاؤں دیکھتے دیکھتے کب کسبہ اور کسبہ شہر میں تبدیل ہو گیا کسی کو احساس نہ ہوا۔ اس نئے دور نے شہر کی پوری تصویر ہی بدل دی۔ ہر ملک میں ہائی وے، سبوے، میٹرو، لگزری گاڑیاں اور موڈرن بس اب عام بات ہے۔ کیوں کہ ہر میدان نے اپنے ترقی کا دائرہ وسیع کر لیا ہے۔         لیکن اس ترقی پسند دور میں ابھی بھی ایک قوم ایسی ہے جو صدیوں سے اب تک وہیں ہے جہاں سے اس کا جنم ہوا تھا۔ اس قوم کے افراد میلے کچیلے پھٹے لباس میں کھالی جھولیاں اور آنکھوں میں ہم سے امیدیں لئے کبھی کسی ہائی وے کے موڑ پر ، کبھی میٹرو کے گیٹ پر تو کبھی بس یا ریلوے اسٹاپ پر مل جاتے ہیں۔ یہ وہ قوم ہے جن کو کوئی جانتا نہیں، جن کے پاس رہنے کو گھر ، کھانے کو روٹی اور پہننے کو لباس نہیں ہوتے۔ جن کا وجود حکو