آج پہلی بار کلیہ گیا ،مجھے بہت جھجھک محسوس ہورہی تھی ،راستے میں طرح طرح کے خیالات ابھر رہے تھے ،ویسے بھی مجھے پہلی بار کچھ کرنے میں کافی ہمت جٹانی ہوتی ہے ،خیر کچھ دیر اپنے سر کے الجھاؤ میں الجھ کر کلیہ پہچ ہی گیا ،صدر دروزے سے انٹری کرتے ہی ملازم کا سامنا ہوا اس کے برتاؤ سے لگا کہ وہ میرا ہی انتظار کر رہا تھا اب جاکر میری انقباض قلبی دور ہوتی گئی ، اور میں حساس و بشاشیت کے ساتھ کلاس میں پہچا ،درس گاہ میں طلبہ کی بھیڑ نے میری کمر توڑ دی قریب آدھا گھنٹہ دروازے پہ کھڑے ہوکر محاضرہ سننا پڑا ،جس کی وجہ سے دماغ نے سوالات کا پٹارا کھول دیا کیا ہر روز اتنے طلبہ آتے ہیں ؟ کلاس کو گروپ میں کیوں نہیں باٹ دیا گیا ؟ ہاے دو ڈھائی سو طلبہ کے مابین صرف تین یا چار پنکھے ؟ یہ لوگ مائک کا استعمال کیوں نہیں کرتےہیں ؟ خیر محاضرہ ختم ہوا اسٹوڈنٹ باہر نکلنے شروع ہوئے ،اور مجھے اندر جانے کی اجازت مل گئی جگہ پاتے ہی میں بیٹھ گیا اگل بغل والے سے مختصر سا تعارف ہوا پھر ایک شخص آیے اور محاضرے کی کرسی پہ بیٹھ گیے طلبہ ان کی طرف متوجہ ہوئے اور آپ نے بولنا شروع کردیا ،اب تک میرا خیال تھا کہ یہ دکتو
__________________نالۂ دل___________________ کاش کہ دو دل ہوتے سینے میں ایک خوشی میں ہنستا اور دوسرا روتا غم میں!! آنکھ کھلی تو سوچا نہا کر عید کے لیے نئے جوڑے کا انتخاب کروں، اور اسے زیب تن کرکے عطر میں ملبوس ہوکر عید کی نماز پڑھوں، اور دوستوں کے ساتھ ملکر خوشیاں بٹوروں، عید ہونے کی خوشی اتنی تھی کہ فورا بستر سے اٹھکر حمام تک پہچ گیا اور چند ہی منٹوں میں خوشی کی غسل سے فراغت حاصل کر لی ،پانی کی ٹھنڈک نے شاید دل و دماغ کو ٹھنڈا کر دیا، جس سے ذہن بیتے لمحوں اور حادثات کو ازسر نو حاشیہ خیال پر لانے کا پروسس شروع کر چکا تھا جو کے چند لمحوں کی نیند کے سبب ذہن کے پردوں سے اوجھل ہو چکا تھا ، اور آرام دہ نیند نے کچھ گھنٹوں کے لیے جسم و جاں کو آرام بخشا تھا ،پھر کیا جیسے ہی نئےجوڑے کی طرف ہاتھ بڑھایا دماغ نے فورا دل کو ایک زور کا جھٹکا دیا اور آنکھوں کے سامنے مظلوم فلسطینیوں اور غاصب و ظالم اسرائیل کے مابین ہوئے حادثات و واقعات گردش کرنے لگے ”ان کی عید کیسی ہوگی جو بچے اپنے والدین کو اپنی آنکھوں کے سامنے اسرائلی ظلم وجبر کا شکار ہوتے ہوے دیکھ رہے ہیں؟ !! اب وہ کس کے ساتھ عید پڑھنے چلیں