نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

المہرجان سماع الدولی للانشاد و الموسیقی الروحیۃ


اج سے تقریبا بارہ سال پہلے وزیر ثقافۃ مصریہ فنان فاروق حسنی نے قبۃ غوری میں اس کی داغ بیل ڈالی تاکہ جملہ عالم کو موسیقی کے تار سے امن وسلام ٫اتحاد و اتفاق کا حسین پیغام دے سکے
ایک بھلے شخص کے بھلے مقاصد تھے اسی لیے شاید اچھے بڑے لوگوں نے بھی اسکا سپورٹ کیا 
یہ اپنے روز اول سے ہی مختلف ممالک کے گلوکاروں کو بلاتے ہیں اور ان سے انکی زبان میں میوزیک سنتے ہیں جس میں تمام عوام مدعو ہوا کرتی ہیں اس کی ابتدا وہ  عالمی امن کا دن 21ستمبر کو کرتے ہیں
حسب معمول اس سال بھی 21ستمبر کو قلعہ صلاح الدین ایوبی میں یہ پروگرام شروع ہوگیا ہے یہ ان کا بارہواں سیزن ہے اور اب تک لگ بھگ 185ملکوں کی اس میں شرکت ہوچکی ہے 
گذشتہ شب ہم لوگوں نے بھی اس میں شرکت کی٫ جاتے ہی قلعہ کے طول وعرض میں حیرانی ہوئی اتنا لمبا قلعہ!اب تو شاید چھوٹا کردیا گیا ہے !
اسی میں سماع والوں نے اپنا  جلوہ بکھیرنا تھا اس لیے چاروں اور اجالا تھا 'اسٹیج تک پہچنے کے لیے قلعہ نما محافظوں کی قطار تھی جو مختلف مصری لباس میں ملبوس تھے اور ایک جانب مصرکے پرانے انوکھے باقیات فروخت ہورہے تھے کچھ دور چل کر کرسیوں کا میلہ تھا جس کے اگے سماع کا اسٹیج تھا جسے سجانے کی بلکل ضرورت محسوس نہیں ہوئی ٫مختلف ممالک کی مختلف انوکھی تہذیب و ثقافت سے وہ خود ہی کویی حدیقۃ الازہر سے کم نہیں تھا 
اب ہم لوگوں نے بھی اسی بھیڑ میں کرسی تان لی٫ نغموں کا دور شروع ہوا ساتھ بالایی خانے پہ رومیانہ رقص بھی چالو ہوا جسے پبلک نے محبت بھرے نظروں سے دیکھا تالیوں اور سیٹیوں کی للکار اور جھنکار تھی اسی ماحول میں مصر سے اتھوپیا تک تقریبا 24ممالک کے گیت سنے اور سناےگیے اور اخیر میں انہیں انعامات سے نوازا گیا
یہ رنگا رنگی یہاں ختم تو ہوگئی لیکن کچھ سوالات ابھی باقی ہی رہ گیے 
کیا سماع امن وسلامتی کا داعی ہے ؟
اور کیا مہرجان اپنے مقصد میں کامیاب ہو پارہا ہے ؟
کیا مہرجان کو اپنے ذوق سماع کو بڑھانے یا اچھا کرنے کی ضرورت نہیں ہے؟
 کیا مختلف ممالک کے نغموں کے ساتھ ان کی تہذیب رقص بھی اگر شامل ہوتا تو اچھا نہیں لگتا ؟
کیا مہرجان کو اور اچھے گلوکار کو نہیں بلانا چاہیے تاکہ پبلک تک اس ملک کا اچھا نغمہ پہچے ؟

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

جامعہ عارفیہ سے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی

سر سید احمد خان نے 1875ء میں ”محمڈن اینگلو اورینٹل کالج“ کی بنیاد   ڈالی تھی جسے 1920ء میں یونیورسٹی کا درجہ ملا اور آج اسے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی حیثیت سے عالمی شہرت حاصل ہے- انہوں نے کہا: میں ہندوستانیوں کے اندر  ایسی تعلیم چاہتا ہوں کہ اس کے ذریعہ ان کو اپنے حقوق حاصل کرنے کی قدرت ہو جائے، اگر سرکار نے ہمارے کچھ حقوق اب تک نہیں دیے ہیں جن کی ہم کو شکایت ہو تو بھی ہائی ایجوکیشن وہ چیز ہے کہ خواہ مخواہ طوعاً و کرہاً ہم کو دلا دے گی۔ خدا کے فضل سے جامعہ عارفیہ سید سراواں کا معادلہ اس عظیم یونیورسٹی سے چند سال قبل ہوا۔ اس معادلہ نے مدرسہ ھٰذا کے طلبہ کے لئے کئی راستے ہموار کیے ہیں۔ دینی تعلیم کی تکمیل کے بعد جامعہ عارفیہ کے طلبہ اب یونیورسٹیوں کا رخ کر رہے ہیں۔ معادلے کے بعد سے اب تک تقریباً درجن بھر طلبہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی  سے گریجویٹ ہو چکے ہیں اور کئی طلبہ ابھی بھی اس میں زیر تعلیم ہیں۔ مستقبل میں اس یونیورسٹی  کی جانب رخ کرنے والے طلبہ کی رہنمائی کے لئے یہ تحریر شائع کی جا رہی ہے۔ لھٰذا اس یونیورسٹی  میں  موجود کورس، شعبہ اور داخلہ کی ...

نہ من تنہا در یں خانہ مستم

اکیسوی صدی کی شروعات ہی کافی تیز رفتاری سے ہوئی۔  اگر اس کو ترقی کی صدی کہوں تو شاید غلط نہ ہو جہاں ہر چیز کافی تیز رفتاری سے ترقی پذیر ہو رہی ہے۔ جتنے زرائع ہر شئے کے لئے اس صدی میں ہیں پچھلی کسی  صدی میں موجود نہ تھے۔  وقت کے ساتھ ساتھ انسان نے  اپنے نا صرف طرز زندگی کو بدلا بلکے برتاو و معاملات کے طریقوں میں بھی کافی تبدیلی کی۔ گاؤں دیکھتے دیکھتے کب کسبہ اور کسبہ شہر میں تبدیل ہو گیا کسی کو احساس نہ ہوا۔ اس نئے دور نے شہر کی پوری تصویر ہی بدل دی۔ ہر ملک میں ہائی وے، سبوے، میٹرو، لگزری گاڑیاں اور موڈرن بس اب عام بات ہے۔ کیوں کہ ہر میدان نے اپنے ترقی کا دائرہ وسیع کر لیا ہے۔         لیکن اس ترقی پسند دور میں ابھی بھی ایک قوم ایسی ہے جو صدیوں سے اب تک وہیں ہے جہاں سے اس کا جنم ہوا تھا۔ اس قوم کے افراد میلے کچیلے پھٹے لباس میں کھالی جھولیاں اور آنکھوں میں ہم سے امیدیں لئے کبھی کسی ہائی وے کے موڑ پر ، کبھی میٹرو کے گیٹ پر تو کبھی بس یا ریلوے اسٹاپ پر مل جاتے ہیں۔ یہ وہ قوم ہے جن کو کوئی جانتا نہیں، جن کے پاس رہنے کو گھر ، کھا...

یہ ‏ضعف ‏کا ‏عالم ‏ہے ‏کہ ‏تقدیر ‏کا ‏لکھا

         میں لکھنے کا عادی نہیں اور ناہی کوئی لکھاری ہوں ،لیکن کبھی کبھی جبرا لکھنا ہوتا ہے ،کلیہ کی طرف سے لکھنے کا کام ملتا ہے ،نا چاہ کر بھی محض نمبرات کے لیے  قرطاس سیاہ کرنا  ہوتا ہے ،اس سال بھی اسائمنٹ لکھنا تھا ،فلسطین کے تازہ ترین حالات پر  ہی ایک چھوٹا سا مضمون قلم بند کرنا تھا جمع کرنے کی تاریخ قریب آگئی تو  قلم اٹھایا سوچا لکھوں ۔۔۔ لیکن کیا لکھوں ؟؟۔۔۔۔فلسطین ۔۔۔۔ کوئی قصہ عشق ہو تو لکھوں ،کسی شہزادی کی داستان ہو تو لکھوں ،تحریر کے لئے چاہیے کوئی سلگتا عنوان، کوئی اختلافی موضوع، یا کوئی سنسنی خیز خبر جیسے سیلیبریٹی کا قتل، سیاسی الٹ پھیر یا کوئی ایکسیڈینٹ ۔ یا پھر تحریر کے لئے حسن و عشق چاہیے۔ ہائی پروفائلڈ محبوبہ کی رنگین زلفوں کا اسیر مجنوں، محبت میں ناکام عاشق کی دیوانگی یا یک طرفہ محبت کا دردناک انجام، غزہ کے ان بھوکے ،بے گھر ،ستائے ہوئے، مظلوموں کے بارے میں کیا لکھوں ،جن پر خود ان کے اپنے منھ نہیں کھولتے ،جن پر اقوام متحدہ ترس نہیں کھاتی ،امن کے نمائندے جن کی نمائندگی نہیں کر رہے ہیں!! کسی کتاب یا مضمون کا خلاصہ کرنا ہوتا تو ...