نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

یہ ‏ضعف ‏کا ‏عالم ‏ہے ‏کہ ‏تقدیر ‏کا ‏لکھا

        

میں لکھنے کا عادی نہیں اور ناہی کوئی لکھاری ہوں ،لیکن کبھی کبھی جبرا لکھنا ہوتا ہے ،کلیہ کی طرف سے لکھنے کا کام ملتا ہے ،نا چاہ کر بھی محض نمبرات کے لیے  قرطاس سیاہ کرنا  ہوتا ہے ،اس سال بھی اسائمنٹ لکھنا تھا ،فلسطین کے تازہ ترین حالات پر  ہی ایک چھوٹا سا مضمون قلم بند کرنا تھا جمع کرنے کی تاریخ قریب آگئی تو 
قلم اٹھایا سوچا لکھوں ۔۔۔
لیکن کیا لکھوں ؟؟۔۔۔۔فلسطین ۔۔۔۔
کوئی قصہ عشق ہو تو لکھوں ،کسی شہزادی کی داستان ہو تو لکھوں ،تحریر کے لئے چاہیے کوئی سلگتا عنوان، کوئی اختلافی موضوع، یا کوئی سنسنی خیز خبر جیسے سیلیبریٹی کا قتل، سیاسی الٹ پھیر یا کوئی ایکسیڈینٹ ۔
یا پھر تحریر کے لئے حسن و عشق چاہیے۔ ہائی پروفائلڈ محبوبہ کی رنگین زلفوں کا اسیر مجنوں، محبت میں ناکام عاشق کی دیوانگی یا یک طرفہ محبت کا دردناک انجام،
غزہ کے ان بھوکے ،بے گھر ،ستائے ہوئے، مظلوموں کے بارے میں کیا لکھوں ،جن پر خود ان کے اپنے منھ نہیں کھولتے ،جن پر اقوام متحدہ ترس نہیں کھاتی ،امن کے نمائندے جن کی نمائندگی نہیں کر رہے ہیں!!
کسی کتاب یا مضمون کا خلاصہ کرنا ہوتا تو کرتا ،یہ ستر سالہ مظلومیت کی داستان کا خلاصہ کیسے لکھوں!!
کیا مجھ میں اتنی لیاقت ہے کہ میں ان پر ڈھائے گیے ظلم وستم کو بیان کرسکوں ،کیا میرے ٹوٹے پھوٹے لفظوں اور جملوں میں اتنی وسعت ہے کہ ان کے بوسیدہ حالات کی تعبیر کر سکے !
آخر ان بچوں کے حالات کی کیا تعبیر ہوگی!! لہو سے رنگین معصوم سا لال چہرہ  ،جو گرتے ہوئے ملبے سے کسی طرح بچ نکلا تھا ،اور پر امید آس بھری نظروں سے اپنے والدین کے نکلنے کا انتظار کر رہا تھا !!
کیا تعبیر ہوگی اس سچویشن کی ؟؟
جس میں ایک چھ سال کا معصوم سا بچہ اپنے باپ کو کندھا دیتا ہوا نظر آتا ہے ،گنوں اور میزائلوں کی زد میں آکر اما اماہ کہتے کہتے داعی اجل کو لبیک کہتا ہوا وہ ننہا سا فلسطینی سپاہی!!!
اپنے گھر سے نکالا ہوا ،ہاتھ میں فلسطینی علم لیکر اسرائیلی درندوں سے قدس کی آزادی کی مانگ کرتا ہوا وہ بے گھر سا بچہ ،!!بم سے ٹکراکر ،والدین اور اپنے پیر کو کھونے والا وہ بچہ!!
معصوم شہیدوں کو کونسے لفظوں کا ہار پہناؤ جو اسرائلی درندوں کے چھوڑے ہوئے میزائلوں ،اور چلائے گیے گنوں کا شکار ہوگئے ،اخر ان نوجوانوں اور فلسطینی شہزادیوں ،اور ان کے والدین کو کس طرح کے کلمات سے سلامی دوں ،جو ہر طرح کے مصیبتوں سے نپٹ کر قدس کی بازیابی کے لیے نہتے صرف ہاتھ میں پتھر لیے دنیا کی چھٹی پاور فل آرمی سے ٹکر ا رہے ہیں!!
یہاں تو درد وکرب کی ایک داستان ہے جو میرے بیاں سے باہر ہے آخر میں کیسے لکھوں ؟؟میں تھک گیا ذہن غزہ کے شہدوں کی نزر ہوگیا ،اب طاقت گفتار رہی اور ناہی ہاتھ میں جنبش ،جب ذہن میں ان شہیدوں کی ایک تعداد آکھی ہوگئی تو میںنے قلم چھوڑ دیا اور بستر پر لیٹ گیا ۔۔۔۔۔۔
آخر میں کیسے لکھوں؟؟
کوئی دوسرا موضوع دیں!
میں میزائلوں سے گرائے ہوئے ابراج کو کیسے کیا لکھوں ،جو غزہ کے راستوں کو بلاک کر چکا ہے جس کے نیچے دبے ہوئے بچے اور بچیاں چیخ رہی ہیں ،جس میں دبے ماں اور بہنیں بلک رہی ہیں ،جو نا جانے کتنے بچوں کو یتیم کر چکے ہیں !!
غزہ  کے ان مسلمانوں کی کہانی کیا لکھوں ؟جن کو اسرائیلی سپاہیوں نے اسلحوں کے زور پر بے گھر کردیا ہے،اب ان بچوں ،بوڑھوں ،مرد و عورت پر کیا تبصرہ کروں جو اپنا سر چھپانے کے لیے در در کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں ۔۔۔!!
میں اس "شیماء ابو العوف" کے گھر والوں  کو کن لفظوں سے تسلی دوں،جو عید کے بعد اپنے سسرال جانے والی تھی ،اور جانے سے پہلے اسرائیلی درندوں کی شکار ہوگئی !!
آخر "نادین عبدیل" کے سوال کا کیا جواب لکھوں :کہ ہمارے ساتھ اس طرح سے ظلم کیوں کیا جارہا ہے ؟؟
کیا اسے بتا دیا جائے ،کہ ننھے ننھے بچوں کے گلے محض اس لئے کاٹے جارہے ہیں کہ وہ آزادی کی فضا میں سانس لینا چاہتے ہیں اور وہ اپنی ہی سر زمین پر دوسرے درجے کے شہری بن کر نہیں رہنا چاہتے۔ اسی خطا کی سزا میں آج غزہ کی سر زمین پر اسرائیلی جلاد مسلسل بم گرا رہے ہیں۔
مجھ سے نہیں ہو سکے گا ،میرے قلم میں اتنی وسعت نہیں!!  
آخر اسرائیل کے ظلم و ستم کو کن لفظوں سے بیان کروں !!یہاں تو لفظ ظالم بھی اس کے  لیے معصوم لگتا ہے  ایک دو سال کے مظالم کی بات ہو تو کہوں !یہاں تو ستر سال کا ایک طویل عرصہ ہے ،اس کے ظلم کی کہانی لکھنا گویا ان کے ظلم میں کمی کرنا ہے ،کیوں کہ ہر ایک جبر کو لکھا نہیں جا سکتا ہے ،اس قوم کے  ظلم کی داستان کا سرورق کیا ہوگا جس کی تعمیر ہی فلسطین کے مسلمانوں کے جان ومال عزت و آبرو کی اینٹ سے کی گئی ہے ۔۔یہ تنہا ملک ہے جس کا قیام مذہبی طور پر ہوا ،اور جسے فلسطینوں کے خون سے کھیلنے کے باوجود ملک کا تمغہ ملا 
 اسرائیل کو لگ رہا ہے کہ ان کے جدید ترین ہتھیاروں اور فضائی حملوں سے فلسطینیوں کی رگوں میں بہنے والا وہ خون منجمد ہو جائے گا جو گزشتہ۷۳؍ برس سے طاعوتی طاقتوں سے لوہا لے رہا ہے؟ صہیونی حکومت کو محسوس ہو رہا ہے کہ وہ طاقت کے بل پر حماس کے ان جانبازوں کو روند ڈالے گا جنھوں نے بچپن سے آج تک نغمۂ شہادت کے علاوہ کوئی ترانہ گایا ہی نہیں۔ صہیونیوں کو شاید علم نہیں کہ اہل حق کی گردن پر چلنے والے خنجر ہمیشہ شکست کھاتے ہیں اور انشاء اللہ ایسا ہی ہوگا ۔۔
جب ذہن غزہ کے داستان سے بالکل الجھ گیا ،تو طبیعت میں تھکن محسوس ہونے لگی اور میں نے لکھنے کا ارادہ ترک کر دیا۔۔۔

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

جامعہ عارفیہ سے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی

سر سید احمد خان نے 1875ء میں ”محمڈن اینگلو اورینٹل کالج“ کی بنیاد   ڈالی تھی جسے 1920ء میں یونیورسٹی کا درجہ ملا اور آج اسے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی حیثیت سے عالمی شہرت حاصل ہے- انہوں نے کہا: میں ہندوستانیوں کے اندر  ایسی تعلیم چاہتا ہوں کہ اس کے ذریعہ ان کو اپنے حقوق حاصل کرنے کی قدرت ہو جائے، اگر سرکار نے ہمارے کچھ حقوق اب تک نہیں دیے ہیں جن کی ہم کو شکایت ہو تو بھی ہائی ایجوکیشن وہ چیز ہے کہ خواہ مخواہ طوعاً و کرہاً ہم کو دلا دے گی۔ خدا کے فضل سے جامعہ عارفیہ سید سراواں کا معادلہ اس عظیم یونیورسٹی سے چند سال قبل ہوا۔ اس معادلہ نے مدرسہ ھٰذا کے طلبہ کے لئے کئی راستے ہموار کیے ہیں۔ دینی تعلیم کی تکمیل کے بعد جامعہ عارفیہ کے طلبہ اب یونیورسٹیوں کا رخ کر رہے ہیں۔ معادلے کے بعد سے اب تک تقریباً درجن بھر طلبہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی  سے گریجویٹ ہو چکے ہیں اور کئی طلبہ ابھی بھی اس میں زیر تعلیم ہیں۔ مستقبل میں اس یونیورسٹی  کی جانب رخ کرنے والے طلبہ کی رہنمائی کے لئے یہ تحریر شائع کی جا رہی ہے۔ لھٰذا اس یونیورسٹی  میں  موجود کورس، شعبہ اور داخلہ کی ...

نہ من تنہا در یں خانہ مستم

اکیسوی صدی کی شروعات ہی کافی تیز رفتاری سے ہوئی۔  اگر اس کو ترقی کی صدی کہوں تو شاید غلط نہ ہو جہاں ہر چیز کافی تیز رفتاری سے ترقی پذیر ہو رہی ہے۔ جتنے زرائع ہر شئے کے لئے اس صدی میں ہیں پچھلی کسی  صدی میں موجود نہ تھے۔  وقت کے ساتھ ساتھ انسان نے  اپنے نا صرف طرز زندگی کو بدلا بلکے برتاو و معاملات کے طریقوں میں بھی کافی تبدیلی کی۔ گاؤں دیکھتے دیکھتے کب کسبہ اور کسبہ شہر میں تبدیل ہو گیا کسی کو احساس نہ ہوا۔ اس نئے دور نے شہر کی پوری تصویر ہی بدل دی۔ ہر ملک میں ہائی وے، سبوے، میٹرو، لگزری گاڑیاں اور موڈرن بس اب عام بات ہے۔ کیوں کہ ہر میدان نے اپنے ترقی کا دائرہ وسیع کر لیا ہے۔         لیکن اس ترقی پسند دور میں ابھی بھی ایک قوم ایسی ہے جو صدیوں سے اب تک وہیں ہے جہاں سے اس کا جنم ہوا تھا۔ اس قوم کے افراد میلے کچیلے پھٹے لباس میں کھالی جھولیاں اور آنکھوں میں ہم سے امیدیں لئے کبھی کسی ہائی وے کے موڑ پر ، کبھی میٹرو کے گیٹ پر تو کبھی بس یا ریلوے اسٹاپ پر مل جاتے ہیں۔ یہ وہ قوم ہے جن کو کوئی جانتا نہیں، جن کے پاس رہنے کو گھر ، کھا...