__________________نالۂ دل___________________
کاش کہ دو دل ہوتے سینے میں ایک خوشی میں ہنستا اور دوسرا روتا غم میں!!
آنکھ کھلی تو سوچا نہا کر عید کے لیے نئے جوڑے کا انتخاب کروں، اور اسے زیب تن کرکے عطر میں ملبوس ہوکر عید کی نماز پڑھوں، اور دوستوں کے ساتھ ملکر خوشیاں بٹوروں، عید ہونے کی خوشی اتنی تھی کہ فورا بستر سے اٹھکر حمام تک پہچ گیا اور چند ہی منٹوں میں خوشی کی غسل سے فراغت حاصل کر لی ،پانی کی ٹھنڈک نے شاید دل و دماغ کو ٹھنڈا کر دیا، جس سے ذہن بیتے لمحوں اور حادثات کو ازسر نو حاشیہ خیال پر لانے کا پروسس شروع کر چکا تھا جو کے چند لمحوں کی نیند کے سبب ذہن کے پردوں سے اوجھل ہو چکا تھا ، اور آرام دہ نیند نے کچھ گھنٹوں کے لیے جسم و جاں کو آرام بخشا تھا ،پھر کیا جیسے ہی نئےجوڑے کی طرف ہاتھ بڑھایا دماغ نے فورا دل کو ایک زور کا جھٹکا دیا اور آنکھوں کے سامنے مظلوم فلسطینیوں اور غاصب و ظالم اسرائیل کے مابین ہوئے حادثات و واقعات گردش کرنے لگے
”ان کی عید کیسی ہوگی جو بچے اپنے والدین کو اپنی آنکھوں کے سامنے اسرائلی ظلم وجبر کا شکار ہوتے ہوے دیکھ رہے ہیں؟ !!
اب وہ کس کے ساتھ عید پڑھنے چلیں گے؟ !!
والدین عید کے بعد کن بچوں کو عید کی خوشیاں دیں گے جن کے سامنے اسرائلی درندوں نے ان کے معصوم بچوں کو شہید کر ڈالا !!!
وہ بہن اور بھائی کب عید کا جوڑا زیب تن کریں گے جو ہاتھ میں پتھر لیے اسرائلی ظالموں کے سامنے اپنے حق کے لیے جدو جہد کر رہے ہیں !!
وہ کب اور کہاں عید کی نماز ادا کریں گے جو مسجد اقصی کو بچانے کے لیے دن و رات کی قربانی دے رہے ہیں !!کیا یہ دہشت گرد کچھ لمحوں کے لیے انہیں مہلت دے پائیں گے! کہ وہ خوش ہوکر اپنے رب کے حضور دو رکعت نماز سکون سے اداکر لیں !!نہیں نہیں وہ تو بھوکی لومڑی ہے جو ہمیشہ موقع کی تلاش میں رہتی ہے !!!ابھی نگاہوں سے جمعہ کا وہ حملہ روپوش نہیں ہوا جب عین نماز میں غاصبوں نے وار کیا جس سے تقریبا سات سو لوگ زخمی اور کئ لوگ شہید ہوگئے !!
وہ کس راستے سے نماز کے لیے جائیں گے ہر طرف تو بم سے اڑائے ہوئے مکانات کے ملبے ، گولیوں اور بارود کی آنکھیں ٹکی ہوئی ہیں !!!کیا جاتے ہوئے ان پر گولیوں اور بارود کی برسات نہیں ہوسکتی !!یا کوئی مکان بم کی زد میں آکر ان پر نہیں گریگا !!
وہ پانچ سو گھر کہاں بیٹھکر عید کی سیویاں کھائیں گے جن سے ان کاخود کا گھر چھین لیا گیا !!! وہ فلسطینی ہی ہو سکتے ہیں جو ستر سالوں سے ایک ایسے ملک کی بربریت کا شکار ہورہی ہے جس پر ذرا سی آنچ بھی آ جائے تو وہ دنیا کے سامنے اپنی مظلوم ہونے کا ڈنکا بجانا شروع کر دیتے ہیں ، اور خود روز اول سے دوسروں پر ظلم و زیادتی کرتی آرہی ہے !!اسرائیل کی ظالمانہ حرکتیں کوئی نیا نہیں بلکہ اس کی تو بنیاد ہی ظلم و زیادتی پر ہوئی ہے ،“
ابھی ذہن کے دریچوں سے فلسطین کا درد و کرب ختم نہیں ہوپایا تھا کہ اچانک اپنے پیارے ملک کا خیال بھی عود کر ایا تھا ،میرا ملک بھی ان دنوں عجیب حالات سے گزر رہا ہے ،ہر طرف سے آہ اوہ کی صدائیں آرہی ہیں ،حالات اتنے بدتر ہو چکے ہیں کہ شوشل میڈیا اب اموات کی گنتی کا رجسٹر لگنے لگا ہے ،بلکہ پورا ملک ہی قبرستان یا ہاسپٹل میں تبدیل ہو تا نظر آرہا ہے ،ایک طرف کورونا کی ماہ ماری ہے تو دوسری جانب حکومت کی بے بسی ،ایسے عالم میں کون کس طرح سے عید منا رہا ہوگا اللہ ہی بہتر جانتا ہے ۔۔۔
ہم کیا کریں آنسوں ہی بہا سکتے ہیں جو کر سکتے ہیں وہ تو خاموش ہوکر شرمناک تماشہ دیکھ رہے ہیں ۔۔
ایک طرف آفت اسرائلی ہے دوسری جانب آفت صینی ہے ایک نے فلسطین کے مسلمانوں کا جینا حرام کر رکھا ہے اور دوسری نے پوری دنیا کو ہلاکر رکھ دیا ہے.
____ حسبنا الله ونعم الوكيل______
ہم مسلمانوں کا اللہ ہی نگہبان ہے۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں