نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

اسکندریہ :ذاتی تعارف و تجزیہ


اسکندریہ (Alexandria) مصر کا دوسرا سب سے بڑا شہراور اس کی سب سے بڑی بندر گاہ ہےجسے اتر سے بحر ابیض نے ,دکھن سے نہر  مریوط نے ،پورب سے خلیج ابو قیر ،اور پچھم سے سید کریر نے گھیر رکھا ہے یہ شہر  سوئز کے راستے قدرتی گیس اور تیل کی پائپ لائنوں کے باعث اہم صنعتی مرکز ہے،اپنےروشن مینار (لائٹ ہاؤس) کے باعث یہ بہت ہی مشہورتھا جو 7 عجائبات عالم میں شامل ہے،(جہاں آج قلعہ بنا ہوا ہے) ،اس کے علاوہ زمانہ قدیم میں اسکندریہ کا کتب خانہ بھی کافی شہرت کا حامل تھا،

اس شہر کو 334 قبل مسیح (متنازع تاریخ) میں سکندر اعظم نے بسایا تھا اور اسی کے نام پر آج تک "اسکندریہ" کہلاتا ہے،642ء میں جنگ کے دوران لائبریری اور دیگر مشہور عمارات تباہ ہوگئیں۔ روشن مینار 14 ویں صدی میں زلزلے سے تباہ ہوا اور 1700ء تک یہ شہر ایک چھوٹے سے قصبے کی صورت اختیار کرگیا۔ 1810ء میں مصر کے عثمانی گورنر محمد علی پاشا نے شہر کو دوبارہ تعمیر کرنے کا آغاز کیا اور 1850ء تک اسکندریہ ماضی کی عظمتیں حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا۔
اس لیے 

مصر آنے کے بعد میرے شیڈیول میں اسکندریہ بھی شامل ہوگیا تھا ،تمنا تھی کہ کسی طرح اس شہر کی زیارت مقدر ہو ،زہے نصیب کہ مولانا طالب صاحب کی پیشگی اور مولانا شہاب اللہ صاحب کی  ان تھک کوششوں اور محبتوں کی بدولت اس بار کے اسکندریہ ٹور میں نام درج ہوگیا ،(جس پہ ان دونوں صاحبان کا ممنون بھی ہوں )۔ بروز سنیچر طلوع آفتاب کی  جھلک اور صبح کے ٹھنڈ کی چپیٹ میں ،رم جھم رم جھم بوندوں کے ساتھ مولانا نیاز صاحب اور مولانا مزمل صاحب سے بس پہ چڑھنے سے پہلے ملاقات ہوئی،(یہ بھی ایک اتفاق تھا کہ مولانا نیاز صاحب ہم سفر ملے ورنہ میرے اور ان کے درمیان تباین کی نسبت ہے ،اکثر ایسا ہوتا ہے کہ جہاں وہ رہتے ہیں میں نہیں اور جہاں میں ہوتا ہوں وہ نہیں )اور وہیں سے ہمارا سفر شروع ہوگیا ،٫٫السفر کالسقر ،،کی صعوبتیں برداشت کرکے ہم لوگ اپنے خوابوں کی سرزمین پہ اترے اور دوسرے دن قدیم لائبریری اسکندریہ پہچے،


 اسکندریہ لائبریری (Alexander library)
 1974میں اسکندریہ یونیورسٹی کی جانب سے ایک کمیٹی تشکیل دی گئی تاکہ قدیم لائبریری کی تجدید کی جایے جس کے لیے یونیورسٹی سے متصل ایک نیا پلاٹ لیا گیا اور 1995میں تقریبا دو سو بیس ملین (220$)کا صرفہ لگایا گیا .
16اکتوبر 2002تک لائبریری کے لیے ایک نئی عمارت تیار ہوگئی ،بیضوی شکل (oval shape)مع ساٹھ میٹر ریڈیوس  ،تقریبا ستر فٹ لمبایی والی انوکھی عمارت،جس کے اندر بیس ہزار sqفٹ پہ پھیلے ریڈنگ روم ،اس پہ مستزاد کانفرنس ہال ،میوزم،ارٹ گلری،دیگر کئ اور ڈیپارٹ منٹ کے ساتھ دنیا کی چھٹی سب سے بڑی لائبریریوں میں شمار ہونے لگی, جس میں ابھی تقریبا آ ٹھ ملین کتابیں مع جدید ٹیکنالوجی کے ساتھ متوفر ( available)ہیں ،بحر ابیض متوسط کے کنارے ہونے کی وجہ سے لائبریری کے حسن میں مزید اضافہ ہوگیا ہے ،اب وہ جتنی بڑی قدیم لائبریری ہے اسی قدر مکان سیاحت بھی ہے ،اس کا حسن کتابوں میں منحصر ہونے کے بجائے درودیوار سے بھی عیاں ہے ،اگر اسکندریہ عروس بحر ہے تو لائبریری اس کا سنگھار ہے، لائبریری سے واپسی کے بعد دوسرے دن متحف مائی کےسفر پہ نکلے 

متحف مائی
مولانا نیاز صاحب بالکل یہاں آنے کے موڈ میں نہیں تھے ،شاید آپ کو یہاں کا نظارہ پہلے راس نہیں آیا تھا ،ویسے بھی وہ اعلی ذوق کے مالک ہیں ،مچھلی صرف وہ کھانے میںuse کرتے ہیں ،اسے دیکھ کر دل بہلانا ان کے منشور میں نہیں ،لیکن پھر بھی کثرتِ اصرار کی بنا پہ وہ بھی ہمارے ساتھ تشریف لے آئے ،پہنچتے ہی میں مختلف مچھلیوں کی تصاویر کا اہتمام کرنے لگا، کیوں کہ مچھلیاں تو میں نے خوب دیکھی تھی، لیکن ان کے عالمی اور لغاتی اسموں سے نابلد تھا ،ان کے عربی اسما اور اشکال سے میں بہت مستفید ہوا ۔ بعض مچھلیاں جو بحر متوسط میں پائی جاتی ہیں ،وہ مندرجہ ذیل ہیں  : أسماك المكرونة. أسماك اللوت. أسماك البربوني. أسماك موسى. أسماك الموزة. أسماك السردين. أسماك المياس. أسماك الأنشوجة. أسماك السبارس. أسماك الوقار. أسماك القاروص. أسماك السيوف. أسماك البوري. أسماك الحباريات. أسماك العضاض
 متحف مینائی سے اندازہ ہوا کہ مصر میں معاش کا بڑا ذریعہ مچھلیاں بھی ہیں ،اب جن کے لیے اقتصاد کا وسیلہ ہو، وہ اگر مچھلیوں کا اہتمام نہیں کریں گے تو اور کون کرےگا ؟اس لیے وہ اپنے متحف میں زندہ مچھلیوں کے ساتھ ساتھ ان کے کنگال ،ان سے بننے والی دوائیں ان سب چیزوں کا انتظام کیے ہوئے ہیں ،میں خوشی خوشی مولانا نیاز صاحب کے ساتھ ان چیزوں کو اپنے کیمرے میں قید کرتا رہا ،حالاں کہ اس دوران مولانا شہاب اللہ کئی بار برہم بھی ہوگئے، کیوں کہ انھیں ان چیزوں سے کوئی مطلب نہیں تھا ،وہ بس سرسری نگاہ ڈال کر نکلنا چاہتے تھے ،لیکن میں تھا کہ تصویر کے لیے انھیں روک لیتا ،آپ کی دل لگی اس وقت شروع ہوئی جب وہاں سے نکل کر شاطی پہ پہنچے ،پھر تو حضرت نے جیسے کیمرہ ہی توڑدیا ہو ،الگ الگ پوز پہ وہ پورے سمندر کو قید کرنا چاہتے تھے ،سمندر سے ان کی یہ دل لگی ممبئی کی رہینِ منت ہے ۔ممبئ شہر کا میں ممنون ہوں کہ کم ازکم یہ ذوق تو انھیں عطا کیا،ادھر وہ خود کو سمندر سے ملانے پہ لگے تھے  ،ادھر مولانا نیاز صاحب اور ہم سمندر کی لہر کے پیاسےتھے،ہم دونوں کی مشترکہ کوشش تھی کہ اٹھتی ہوئی لہروں کے ساتھ اپنے کیمرے کی زینت بنیں، جس کی وجہ سے ہم دونوں اس دن بھیگ بھی گئے، لیکن ہار نہیں مانی ،کئی تصویریں ہم نے اس طرح لے لیں ۔

چوتھے دن کا سفر بالکل روحانی سفر تھا۔مختلف مزارات پہ حاضری دینا بھی ضروری ہی تھا ۔شہر میں آکر امیرانِ شہر کی زیارت سے محروم رہنا اچھی بات نہیں ،ویسے بھی رحلہ ازہری تھا ،جن کی رگوں میں صوفیہ کا لہو دوڑتا ہے ،یہ ممکن نہیں کہ اپنے خونِ جگر سے غداری کر بیٹھیں۔شاید مولانا نیاز صاحب بار بار اسکندریہ انھیں صوفیہ کی زیارت کے لیے آتے ہیں۔اسکندریہ کا رحلہ نکلتے ہی وہ اپنا نام متعدد صالحین کی محبت ہی میں لکھواتے ہیں۔وہ خود بھی  صاحبِ سلسلہ ہیں اور ان کی عظمتوں کو اچھی طرح سمجھتےبھی ہیں ۔جیسے ہی ہم شیخ ابو العباس المرسی کی بارگاہ میں پہنچے حضرت دونوں زانوں بیٹھ کر کافی دیر تک بند آنکھوں سے مزار کی سمت دیکھتے رہے ،پھر وہاں سے نکل کر امام قرشی  اور ظہر کے بعد صاحبِ قصیدہ بردہ امام بوصیری رحمۃ اللہ علیہ کی بارگاہ میں حاضری دی ۔فاتحہ خوانی کے بعد چند لمحوں کی گفتگو سے معلوم ہوا،کہ اسکندریہ صرف عروسِ بحرِ ابیض ہی نہیں بلکہ  طرقِ صوفیہ کے لیے مرکزِ عروج وظہوربھی ہے ۔جی ہاں ۔۔۔۔سلسلہ رفاعیہ(منسوب ب۔احمد رفاعی,512-578)  عراق سے پھیل کر نہر دجلہ و فرات کے راستے  سب سے پہلے اسکندریہ ہی پہچا ۔ عارف باللہ حضرت ابو الفتح الواسطی (632)ساتویں صدی ہجری میں مصر تشریف لائے ، آپ نے اسکندریہ میں ہی  قیام فرمایا اور سلسلہ رفاعیہ کے طریقے سے دعوت وتبلیغ کا کام شروع کیا جس سے مصر میں سلسلہ رفاعیہ کا اچھا خاصہ حلقہ بنا،اور آپ کےبعد سید احمد بدوی صاحب آپ کے قائم مقام ہوئے،جو بعد میں طریق بدویہ کے نام سے بھی مشہور ہوا،اسی صدی میں کئی مشائخ عظام مغرب سے بھی مصر تشریف ،(اسی لیے ساتویں صدی ہجری مصر کے لیے تصوف کی صدی کہی جاتی ہے )جن میں شیخ ابوالحسن الشاذلی(553-656)بھی ہیں ،اور طریق شاذلیہ آپ ہی کی جانب منسوب ہے ،اور آپ ہی کے حلقہ ارادت میں شیخ ابو العباس المرسی (706)بھی ہیں جو آج مرکز عام و خاص ہیں ۔۔۔

حدیقہ الحیوان
پانچواں دن تھا، جب ہمیں ٫٫حدیقة الحیوان،، جانا تھا .دل میں امنگ تھی کہ طرح طرح کے جانور ہمیں دیکھنے ملیں گے ،یا کم ازکم پارک ہی خوبصورت بنا ہوگا ،اس کا اندازہ بالکل نہیں تھا کہ حدیقة الحیوان کے نام پہ بندروں کا جھرمٹ اور بکریوں کا ریوڑھ دیکھنے کو ملےگا۔اس میں جنگل کا راجہ شیر بھی تھا ،لیکن اپنی لاغری کی بدولت اس کا عدم، وجود پہ بھاری تھا،اس حدیقہ سے اندازہ ہوا کہ جانور جنگل میں ہی رہنے دیے جائیں ،نمائش کے چکر میں انھیں پنجڑوں میں بند نا کیے جائیں یا پھر انھیں اس طرح کی خوراک بھی مہیا کریں،جس سے ان کے اجسام زیادہ متاثر نہ ہوں۔ دل برداشتہ ہم نے چاروں اور چکر لگائے ،جب تک آنے کا وقت بھی ہوگیا ۔
چھٹے دن ہم لوگوں کو کہیں جانا تھا ،لیکن اسے کینسل کرکے کھلی ہوئی ٫٫بس،، سے اسکندریہ شہر گھمایا گیا ،جس سے ہم لوگ کافی محظوظ ہوئے ،ڈیڑھ دو گھنٹے کا سفر تھا، لیکن تھا بہت ہی پر لطف ،ایک تو سفر کا مزہ اور دوسرا وہ افغانی دوستوں احباب جنھوں نے اس سفر کو ایک پروگرام میں بدل رکھا تھا۔ وہ باری باری نعت ومنقبت، تلاوتِ قرآن سے محفل کی واہ واہی لوٹ رہے تھے اور ہم بس نغمگی سے ہی محظوظ ہورہے تھے،اس دن تھکے ہارے ہم لوگ بعوث پہنچے اور یہ تھکاوٹ اس وقت دور ہوئی، جب رات عشائیے میں مولانا سید فردان صاحب ،مولانا ریاست صاحب ،اور مولانا مزمل صاحب کی ہم نشینی ملی ،کافی دیر تک آپسی تبادلہ خیالات کرتے رہے ،معلوم ہوا کہ سید فردان صاحب اہل اسلام کو لیکر ایک تڑپتی  روح ہیں ،مختلف مسلک و مذہب پہ گہرے مطالعہ کے خواست گار ہیں، کتاب کے بالکل رسیہ ہیں  جب بھی وقت ملتا فوراً لائبریری چلے جاتے ۔

ساتواں دن جمعہ پڑگیا اس لیے جمعہ کے بعد منتزہ پارک کی سیر کرنے کا موقع ملا ۔پارک کافی خوبصورت تھا ،کھجور اور ناریل کے درختوں کی وجہ سے وہ ایک فلک بوس،چھت نما گارڈن  ہے،جس میں نیچے گھاس کی ہریالی ہے تو اوپر شاخوں اور ڈالیوں کی ،یہاں بھی بحر متوسط نے اپنا قبضہ جمالیا ہے، جس کی وجہ سے اس کا حسن دوبالا ہوگیا ہے 

ان کہی باتیں
سنیچر اس سفر کا آخری دن ہےاور ہم سبھی لوگ قاہرہ واپسی کی تیاری میں لگے ہوئے ہیں۔ تقریبا دو بجے ہم لوگ اسکندریہ سے قاہرہ  کے لیے نکل گئے ،تقریبا تین ساڑھے تین گھنٹے کا سفر رہا ہوگا ،جس میں مجھے اسکندریہ کے بارےمیں کچھ مزید سوچنے کا موقع ملا ،میں غور کر رہا تھا کہ جس شہر کو میں نے اپنے خوابوں کے پنوں پہ سجایا تھا ،اسے میں نے کیسا پایا ،دور سے تو ہر چیز بھلی معلوم ہوتی ہے ،قربت ہی  سے شیئ کی حقیقت سامنے آتی ہے ، اس لیے تو کہتے ہیں کہ  دور سے ہی جو دل کو بھا جائے اسے قریب آنے سے روکو؛کیوں کہ قربت سببِ عشق بھی ہے اور باعثِ نفرت بھی ،لیکن اس دفعہ عشق نے قربت پہ غلبہ پالیا ،نفرت کو راہ ہی نہ ملی،کیوں کہ اس شہر کا حسن مصنوعی نہیں طبعی ہے۔یہاں قاہرہ سے زیادہ خوبصورت اور اونچے مکانات نہیں ہیں ،بہت زیادہ تجارتی مراکز ،یا اقتصادی مواقع فراہم نہیں ہیں ،بلکہ اس کی خوبصورتی کا راز بحرِ ابیض میں مضمر ہے ،لوگ اسے دیکھنے ، اس کی تاریخی حیثیت  اور قدر وقیمت کے سبب آتے ہیں،بحرِ ابیض کے ساحل  نے اس شہر کو حسیں سے حسیں تر کردیا ہے ۔ایک جانب نہرِ مریوط اور دوسری سمت  بحر ابیض کے امتزاج سے امتیازی حسن کا مالک ہے ،لوگوں نے بھی ساحل کو عقلی پیرائے پہ استعمال کرتے ہوئے اقتصادی hub بنایا ہوا ہے ،حالاں کہ یہ موقع اگر کسی دوسرے ملک کو ملا ہوتا تو شاید اس سے بہتر اقتصادی hub بن جاتا ،لیکن انہوں نے بھی ساحل کو رائیگاں نہیں جانے دیا ہے ،بحر ابیض کا ہی کمال ہےکہ  یہاں لوگوں میں قاہرہ سے زیادہ تحمل اور زبان میں مٹھاس ہے ،یہی سوچ ہی رہا تھا کہ ہماری بس مدینہ البعوث کے دروازے پہ پہنچ گئی اور ہمارا سفر ختم ہوگیا ۔




تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

عید ‏سعید ‏پر ‏دل ‏کی ‏کیفیت

__________________نالۂ دل___________________ کاش کہ دو دل ہوتے سینے میں ایک خوشی میں ہنستا اور دوسرا روتا غم میں!! آنکھ کھلی  تو سوچا نہا کر عید کے لیے نئے جوڑے کا انتخاب کروں، اور اسے زیب تن کرکے عطر میں ملبوس ہوکر عید کی نماز پڑھوں، اور دوستوں کے ساتھ ملکر خوشیاں بٹوروں، عید ہونے کی خوشی اتنی تھی کہ فورا بستر سے اٹھکر حمام تک پہچ گیا اور چند ہی منٹوں میں خوشی کی غسل سے فراغت حاصل کر لی ،پانی کی ٹھنڈک نے شاید  دل و دماغ کو ٹھنڈا کر دیا، جس سے ذہن بیتے لمحوں اور حادثات کو ازسر نو حاشیہ خیال پر لانے کا پروسس شروع کر چکا تھا جو کے چند لمحوں کی  نیند کے سبب ذہن کے پردوں سے اوجھل ہو چکا تھا ، اور آرام دہ نیند نے کچھ گھنٹوں کے لیے جسم و جاں کو آرام بخشا تھا ،پھر کیا جیسے ہی نئےجوڑے کی طرف ہاتھ بڑھایا دماغ نے فورا دل کو ایک زور کا جھٹکا دیا اور آنکھوں کے سامنے مظلوم فلسطینیوں اور غاصب و ظالم اسرائیل کے مابین ہوئے حادثات و واقعات گردش کرنے لگے  ”ان کی عید کیسی ہوگی  جو بچے اپنے والدین کو اپنی آنکھوں کے سامنے اسرائلی ظلم وجبر  کا شکار ہوتے ہوے دیکھ رہے ہیں؟ !! اب وہ کس کے ساتھ  عید پڑھنے چلیں

یہ ‏ضعف ‏کا ‏عالم ‏ہے ‏کہ ‏تقدیر ‏کا ‏لکھا

         میں لکھنے کا عادی نہیں اور ناہی کوئی لکھاری ہوں ،لیکن کبھی کبھی جبرا لکھنا ہوتا ہے ،کلیہ کی طرف سے لکھنے کا کام ملتا ہے ،نا چاہ کر بھی محض نمبرات کے لیے  قرطاس سیاہ کرنا  ہوتا ہے ،اس سال بھی اسائمنٹ لکھنا تھا ،فلسطین کے تازہ ترین حالات پر  ہی ایک چھوٹا سا مضمون قلم بند کرنا تھا جمع کرنے کی تاریخ قریب آگئی تو  قلم اٹھایا سوچا لکھوں ۔۔۔ لیکن کیا لکھوں ؟؟۔۔۔۔فلسطین ۔۔۔۔ کوئی قصہ عشق ہو تو لکھوں ،کسی شہزادی کی داستان ہو تو لکھوں ،تحریر کے لئے چاہیے کوئی سلگتا عنوان، کوئی اختلافی موضوع، یا کوئی سنسنی خیز خبر جیسے سیلیبریٹی کا قتل، سیاسی الٹ پھیر یا کوئی ایکسیڈینٹ ۔ یا پھر تحریر کے لئے حسن و عشق چاہیے۔ ہائی پروفائلڈ محبوبہ کی رنگین زلفوں کا اسیر مجنوں، محبت میں ناکام عاشق کی دیوانگی یا یک طرفہ محبت کا دردناک انجام، غزہ کے ان بھوکے ،بے گھر ،ستائے ہوئے، مظلوموں کے بارے میں کیا لکھوں ،جن پر خود ان کے اپنے منھ نہیں کھولتے ،جن پر اقوام متحدہ ترس نہیں کھاتی ،امن کے نمائندے جن کی نمائندگی نہیں کر رہے ہیں!! کسی کتاب یا مضمون کا خلاصہ کرنا ہوتا تو کرتا ،یہ ستر سالہ مظلومیت کی داستان کا خلاصہ

نہ من تنہا در یں خانہ مستم

اکیسوی صدی کی شروعات ہی کافی تیز رفتاری سے ہوئی۔  اگر اس کو ترقی کی صدی کہوں تو شاید غلط نہ ہو جہاں ہر چیز کافی تیز رفتاری سے ترقی پذیر ہو رہی ہے۔ جتنے زرائع ہر شئے کے لئے اس صدی میں ہیں پچھلی کسی  صدی میں موجود نہ تھے۔  وقت کے ساتھ ساتھ انسان نے  اپنے نا صرف طرز زندگی کو بدلا بلکے برتاو و معاملات کے طریقوں میں بھی کافی تبدیلی کی۔ گاؤں دیکھتے دیکھتے کب کسبہ اور کسبہ شہر میں تبدیل ہو گیا کسی کو احساس نہ ہوا۔ اس نئے دور نے شہر کی پوری تصویر ہی بدل دی۔ ہر ملک میں ہائی وے، سبوے، میٹرو، لگزری گاڑیاں اور موڈرن بس اب عام بات ہے۔ کیوں کہ ہر میدان نے اپنے ترقی کا دائرہ وسیع کر لیا ہے۔         لیکن اس ترقی پسند دور میں ابھی بھی ایک قوم ایسی ہے جو صدیوں سے اب تک وہیں ہے جہاں سے اس کا جنم ہوا تھا۔ اس قوم کے افراد میلے کچیلے پھٹے لباس میں کھالی جھولیاں اور آنکھوں میں ہم سے امیدیں لئے کبھی کسی ہائی وے کے موڑ پر ، کبھی میٹرو کے گیٹ پر تو کبھی بس یا ریلوے اسٹاپ پر مل جاتے ہیں۔ یہ وہ قوم ہے جن کو کوئی جانتا نہیں، جن کے پاس رہنے کو گھر ، کھانے کو روٹی اور پہننے کو لباس نہیں ہوتے۔ جن کا وجود حکو