نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

جامعہ عارفیہ سے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی

سر سید احمد خان نے 1875ء میں ”محمڈن اینگلو اورینٹل کالج“ کی بنیاد  ڈالی تھی جسے 1920ء میں یونیورسٹی کا درجہ ملا اور آج اسے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی حیثیت سے عالمی شہرت حاصل ہے- انہوں نے کہا:
میں ہندوستانیوں کے اندر  ایسی تعلیم چاہتا ہوں کہ اس کے ذریعہ ان کو اپنے حقوق حاصل کرنے کی قدرت ہو جائے، اگر سرکار نے ہمارے کچھ حقوق اب تک نہیں دیے ہیں جن کی ہم کو شکایت ہو تو بھی ہائی ایجوکیشن وہ چیز ہے کہ خواہ مخواہ طوعاً و کرہاً ہم کو دلا دے گی۔
خدا کے فضل سے جامعہ عارفیہ سید سراواں کا معادلہ اس عظیم یونیورسٹی سے چند سال قبل ہوا۔ اس معادلہ نے مدرسہ ھٰذا کے طلبہ کے لئے کئی راستے ہموار کیے ہیں۔ دینی تعلیم کی تکمیل کے بعد جامعہ عارفیہ کے طلبہ اب یونیورسٹیوں کا رخ کر رہے ہیں۔ معادلے کے بعد سے اب تک تقریباً درجن بھر طلبہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی  سے گریجویٹ ہو چکے ہیں اور کئی طلبہ ابھی بھی اس میں زیر تعلیم ہیں۔
مستقبل میں اس یونیورسٹی  کی جانب رخ کرنے والے طلبہ کی رہنمائی کے لئے یہ تحریر شائع کی جا رہی ہے۔ لھٰذا اس یونیورسٹی  میں  موجود کورس، شعبہ اور داخلہ کی ضروری معلومات ذیل میں درج ہیں۔
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی  نے جامعہ عارفیہ کی عالمیت کی سند کو سینیر سیکنڈری (12th ) کے  مساوی قبول کیا ہے، جس کے تحت فیکلٹی آف آرٹ (Faculty of Art) اور فیکلٹی آف سوشل سائنس (Faculty of Social Science) کے تمام کورسز میں داخلہ لیا جا سکتا  ہے۔

 فیکلٹی آف آرٹس (Faculty of Arts)  کے تحت
 عربی (Arabic)، انگلش (English)، ہندی (Hindi)، فارسی (Persian)، فلسفہ (Philosophy)، قرآنک اسٹڈیذ (Quranic Studies)، سنسکرت (Sanskrit)، اردو (Urdu) اور لسانیات (Linguistics)  جیسے کورسز میں بی اے آنرس (B.A Hons) کر سکتے ہیں۔
جامعہ عارفیہ کی عالمیت کی سند (کم ازکم 50% نمبر کے ساتھ) کی بنیاد پر مذکورہ بالا تمام کورسزمیں داخلہ لیا جاتا ہے۔

فیکلٹی آف سوشل سائنس (Faculty of Social Science) کے تحت
 معاشیات (Economy) ، تعلیم (Education)، جغرافیہ (Geography تاریخ (History) ، اسلامیات (Islamic Studies) ، سیاسیات (Political Science)، نفسیات (Psychology) ، سوشل ورک(Social Work)، سماجیات (Sociology) ، نسائیات (Women Studies) جیسے کورسز موجود ہیں۔
جامعہ عارفیہ کی عالمیت کی سند (کم ازکم50%  نمبر کے ساتھ) کی بنیاد پر مذکورہ بالا تمام کورسزمیں داخلہ لیا جاتا ہے۔
جو طلبہ ان کورسز کے علاوہ وکالت (LLB) کے شعبہ میں جانا چاہتے ہیں یا غیر ملکی زبان (Foreign Language) میں جانا چاہتے ہیں ان کے لئے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی  نے بہت ہی عمدہ موقع فراہم کیا ہے ۔ اس کے لئے علی گڑھ کے اندر طلبہ مدارس کے لئے قائم برج کورس میں داخلہ لینا ہوگا۔ اس کی یک سالہ تعلیم مکمل کرنے کے بعد مزید کئی کورسز کے درواجے کھل جاتے ہیں۔  برج کورس (Bridge Course)،  سے فراغت کے بعد طلبہ فیکلٹی آف آرٹ، فیکلٹی آف سوشل سائنس، فیکلٹی آف انٹرنیشنل اسٹیڈیز  سے بی اے کر سکتے ہیں اور فیکلٹی آف لو سے  بیچلر کی ڈگری لے  سکتے ہیں۔ اس کورس میں داخلہ کے لئے جامعہ عارفیہ سے عالمیت کی سند ضروری ہے جس میں کم از کم پچاس فیصد (%50) نمبر ہوں۔

داخلہ کا عمل
تمام کورسز میں داخلہ ٹیسٹ کے ذریعہ داخلہ لیا جاتا ہے۔ طالب علم کو داخلہ ٹیسٹ میں کامیاب ہونا لازم ہے۔  برج کورس میں داخلہ ٹیسٹ کے بعد ایک انٹرویو بھی پاس کرنا ہوگا۔
داخلہ ٹیسٹ میں آنے والے مواد ہر کورس کے لئے الگ الگ ہو نگے۔ مواد کی فہرست ویب سائٹ پرمل جائے گی اور کتابوں کے لئے اس کتب خانہ  کا رخ کر سکتے ہیں جہاں ایسے داخلہ ٹیسٹ کی کتابیں ملتی ہوں۔
مزید تفصیلات کے لئے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی ویب سائٹ (www.amu.ac.in)  اور تازہ پروسپیکٹس سے رجوع کریں یا ہم سے رابطہ کریں۔

Web Site: https://www.amu.ac.in

Download this article .PDF

Aligarh Muslim University Prospectus 2019-2020.PDF



سجاد حسین ، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (علی گڑھ)
About Me

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

عید ‏سعید ‏پر ‏دل ‏کی ‏کیفیت

__________________نالۂ دل___________________ کاش کہ دو دل ہوتے سینے میں ایک خوشی میں ہنستا اور دوسرا روتا غم میں!! آنکھ کھلی  تو سوچا نہا کر عید کے لیے نئے جوڑے کا انتخاب کروں، اور اسے زیب تن کرکے عطر میں ملبوس ہوکر عید کی نماز پڑھوں، اور دوستوں کے ساتھ ملکر خوشیاں بٹوروں، عید ہونے کی خوشی اتنی تھی کہ فورا بستر سے اٹھکر حمام تک پہچ گیا اور چند ہی منٹوں میں خوشی کی غسل سے فراغت حاصل کر لی ،پانی کی ٹھنڈک نے شاید  دل و دماغ کو ٹھنڈا کر دیا، جس سے ذہن بیتے لمحوں اور حادثات کو ازسر نو حاشیہ خیال پر لانے کا پروسس شروع کر چکا تھا جو کے چند لمحوں کی  نیند کے سبب ذہن کے پردوں سے اوجھل ہو چکا تھا ، اور آرام دہ نیند نے کچھ گھنٹوں کے لیے جسم و جاں کو آرام بخشا تھا ،پھر کیا جیسے ہی نئےجوڑے کی طرف ہاتھ بڑھایا دماغ نے فورا دل کو ایک زور کا جھٹکا دیا اور آنکھوں کے سامنے مظلوم فلسطینیوں اور غاصب و ظالم اسرائیل کے مابین ہوئے حادثات و واقعات گردش کرنے لگے  ”ان کی عید کیسی ہوگی  جو بچے اپنے والدین کو اپنی آنکھوں کے سامنے اسرائلی ظلم وجبر  کا شکار ہوتے ہوے دیکھ رہے ہیں؟ !! اب وہ کس کے ساتھ  عید پڑھنے چلیں

یہ ‏ضعف ‏کا ‏عالم ‏ہے ‏کہ ‏تقدیر ‏کا ‏لکھا

         میں لکھنے کا عادی نہیں اور ناہی کوئی لکھاری ہوں ،لیکن کبھی کبھی جبرا لکھنا ہوتا ہے ،کلیہ کی طرف سے لکھنے کا کام ملتا ہے ،نا چاہ کر بھی محض نمبرات کے لیے  قرطاس سیاہ کرنا  ہوتا ہے ،اس سال بھی اسائمنٹ لکھنا تھا ،فلسطین کے تازہ ترین حالات پر  ہی ایک چھوٹا سا مضمون قلم بند کرنا تھا جمع کرنے کی تاریخ قریب آگئی تو  قلم اٹھایا سوچا لکھوں ۔۔۔ لیکن کیا لکھوں ؟؟۔۔۔۔فلسطین ۔۔۔۔ کوئی قصہ عشق ہو تو لکھوں ،کسی شہزادی کی داستان ہو تو لکھوں ،تحریر کے لئے چاہیے کوئی سلگتا عنوان، کوئی اختلافی موضوع، یا کوئی سنسنی خیز خبر جیسے سیلیبریٹی کا قتل، سیاسی الٹ پھیر یا کوئی ایکسیڈینٹ ۔ یا پھر تحریر کے لئے حسن و عشق چاہیے۔ ہائی پروفائلڈ محبوبہ کی رنگین زلفوں کا اسیر مجنوں، محبت میں ناکام عاشق کی دیوانگی یا یک طرفہ محبت کا دردناک انجام، غزہ کے ان بھوکے ،بے گھر ،ستائے ہوئے، مظلوموں کے بارے میں کیا لکھوں ،جن پر خود ان کے اپنے منھ نہیں کھولتے ،جن پر اقوام متحدہ ترس نہیں کھاتی ،امن کے نمائندے جن کی نمائندگی نہیں کر رہے ہیں!! کسی کتاب یا مضمون کا خلاصہ کرنا ہوتا تو کرتا ،یہ ستر سالہ مظلومیت کی داستان کا خلاصہ

نہ من تنہا در یں خانہ مستم

اکیسوی صدی کی شروعات ہی کافی تیز رفتاری سے ہوئی۔  اگر اس کو ترقی کی صدی کہوں تو شاید غلط نہ ہو جہاں ہر چیز کافی تیز رفتاری سے ترقی پذیر ہو رہی ہے۔ جتنے زرائع ہر شئے کے لئے اس صدی میں ہیں پچھلی کسی  صدی میں موجود نہ تھے۔  وقت کے ساتھ ساتھ انسان نے  اپنے نا صرف طرز زندگی کو بدلا بلکے برتاو و معاملات کے طریقوں میں بھی کافی تبدیلی کی۔ گاؤں دیکھتے دیکھتے کب کسبہ اور کسبہ شہر میں تبدیل ہو گیا کسی کو احساس نہ ہوا۔ اس نئے دور نے شہر کی پوری تصویر ہی بدل دی۔ ہر ملک میں ہائی وے، سبوے، میٹرو، لگزری گاڑیاں اور موڈرن بس اب عام بات ہے۔ کیوں کہ ہر میدان نے اپنے ترقی کا دائرہ وسیع کر لیا ہے۔         لیکن اس ترقی پسند دور میں ابھی بھی ایک قوم ایسی ہے جو صدیوں سے اب تک وہیں ہے جہاں سے اس کا جنم ہوا تھا۔ اس قوم کے افراد میلے کچیلے پھٹے لباس میں کھالی جھولیاں اور آنکھوں میں ہم سے امیدیں لئے کبھی کسی ہائی وے کے موڑ پر ، کبھی میٹرو کے گیٹ پر تو کبھی بس یا ریلوے اسٹاپ پر مل جاتے ہیں۔ یہ وہ قوم ہے جن کو کوئی جانتا نہیں، جن کے پاس رہنے کو گھر ، کھانے کو روٹی اور پہننے کو لباس نہیں ہوتے۔ جن کا وجود حکو