نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

ما هو الجهل؟


أن الجهل عدم العلم: أي عدم إدراك الشيء على ما هو عليه.
و ينقسم الجهل على هذا الرأي إلى بسيط و مركب:
ـ الجهل البسيط: يتعلق بالأمور الحسية.
ـ و الجهل المركب: يتعلق بالأمور الفكرية.
الجهل البسيط: عدم الإدراك بالكلية. وهو عدم العلم بالشيء
وهذا حال الإنسان عامة عندما يخلق ، قال تعالى : {وَاللَّهُ أَخْرَجَكُمْ مِنْ بُطُونِ أُمَّهَاتِكُمْ لَا تَعْلَمُونَ شَيْئًا وَجَعَلَ لَكُمُ السَّمْعَ وَالْأَبْصَارَ وَالْأَفْئِدَةَ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ} [النحل : 78]
و الجهل المركب: إدراك الشيء على خلاف ما هو عليه.
أمثلة:
1ـ أن يقال: متى كانت غزوة بدر؟ فيقول: لا أدري.
فهذا جهل بسيط. ـ لأنه جهل واحد، لا يعلم شيئا.
2ـ أن يقال: متى كانت غزوة بدر؟ فيقول: في السنة الثالثة.
هذا جهل مركب، إذ إن غزوة بدر كانت في السنة الثانية. مركب من جهلين، جهل بالواقع و جهل بالحال، فهو لا يدري، و لا يدري أنه لا يدري!!
أيهما أقبح الجهل البسيط أو المركب؟؟
لا شك أن المركب أقبح، فالجاهل المركب شر من الجاهل البسيط، لأن الجاهل البسيط عرف نفسه فقال: لا أدري.
و أما هذا فادعى أنه عالم، و ليس بعالم، فكان جاهلا بنفسه و جاهلا بالحكم!!
يطلق الجهل في القران على عدة معان.
منها:السخرية:قد نهي الله في القران عن السخرية والهزو :(يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِّن قَوْمٍ عَسَىٰ أَن يَكُونُوا خَيْرًا مِّنْهُمْ وَلَا نِسَاءٌ مِّن نِّسَاءٍ عَسَىٰ أَن يَكُنَّ خَيْرًا مِّنْهُنَّ ۖ وَلَا تَلْمِزُوا أَنفُسَكُمْ وَلَا تَنَابَزُوا بِالْأَلْقَابِ ۖ بِئْسَ الِاسْمُ الْفُسُوقُ بَعْدَ الْإِيمَانِ ۚ وَمَن لَّمْ يَتُبْ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ (11)
ومن يسخر الناس فهو من الجاهلين كما جاء في سورة البقره: وَإِذْ قَالَ مُوسَىٰ لِقَوْمِهِ إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُكُمْ أَن تَذْبَحُوا بَقَرَةً ۖ قَالُوا أَتَتَّخِذُنَا هُزُوًا ۖ قَالَ أَعُوذُ بِاللَّهِ أَنْ أَكُونَ مِنَ الْجَاهِلِينَ (67)
فاعد الهزو من عمل الجاهلين
منها :التهكم والتحسر -نهي الله النبي (صلي الله عليه و سلم) عن ان يتحسر علي الكفار و ان يبخع :وَإِن كَانَ كَبُرَ عَلَيْكَ إِعْرَاضُهُمْ فَإِنِ اسْتَطَعْتَ أَن تَبْتَغِيَ نَفَقًا فِي الْأَرْضِ أَوْ سُلَّمًا فِي السَّمَاءِ فَتَأْتِيَهُم بِآيَةٍ ۚ وَلَوْ شَاءَ اللَّهُ لَجَمَعَهُمْ عَلَى الْهُدَىٰ ۚ فَلَا تَكُونَنَّ مِنَ الْجَاهِلِينَ (35)
منها:الخوض في الله
ان التفكير في آ لاءالله مستحسن وفي الله مذموم ‘ومن خاض في الله فهو من الجاهلين
منها:المعصية : قَالَ رَبِّ السِّجْنُ أَحَبُّ إِلَيَّ مِمَّا يَدْعُونَنِي إِلَيْهِ ۖ وَإِلَّا تَصْرِفْ عَنِّي كَيْدَهُنَّ أَصْبُ إِلَيْهِنَّ وَأَكُن مِّنَ الْجَاهِلِينَ (33)
اضرار الجهل
التعليم هو أ ساس أ ي نهضة فلا يمكن أن تحقق نهضة بدون علم ‘
والجهل يسبب في ضعف المجتمع فالجهل مصيبة المصائب، وآفة الآفات في المجتمعات، فإذا حلَّ الجهل في أمة من الأمم، لا يكون مصيرها إلاَّ الهلاك والبوار، لأنها لا تستطيع على شيء، وعندما لا تستطيع على شيء، فإنها ستكون عرضة دائماً وأبداً لبغي الأعداء..

والجاهل هالك، لأنه لا يضع الشيء في محله، وكثيراً ما تصدر منه الحماقة، وسوء التصرف، والحماقة لا يتولد منها إلاَّ التهور والضعف وسرعة الغضب والأنفعال وسوء السلوك، وأنه لا يعالج الأمور بالتأني والروية والحكمة والصبر، وإنما يسعى إلى التغيير بحماقته ولكنه سرعان ما يقع في الخطأ والتردي والسقوط.

هذا هو حال الجاهل والمتخلف، لذا قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: (من يرد الله به خيراً يفقه في الدين)

والصحابي الجليل أبو ذر رضي الله عنه أدرك ذلك بحسه النبوي فقال: (العالم والمتعلم شريكان في الخير وسائر الناس لا خير فيهم، كن عالماً أو متعلماً أو مستمعاً ولا تكن الرابع فتهلك) ويقصد بالرابع الجاهل.

وقال الشعبي (رحمه الله): (اتقوا الفاجر من العلماء والجاهل من المتعبدين فإنه آفة كل مفتون)
لهذا لم يسوِ الله عز وجل بين أهل العلم والجاهلين بقوله تعالى: ﴿ قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الَّذِينَ يَعْلَمُونَ وَالَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ إِنَّمَا يَتَذَكَّرُ أُولُو الْأَلْبَابِ )

ونصح أحد العلماء المسلمين بعدم مشاورة سبعة من الناس قائلاً: (سبعة لا ينبغي لذي عقل أن يشاورهم: جاهل، وعدو، وحسود، ومرَّاء، وجبان، وذو هوى، فالجاهل يُضل، والعدو يريد الهلاك، والحسود يتمنى زوال النعمة، والمرائي واقف على رضا الناس، والجبان من دأبه الهرب، والبخيل حريص على المال، فلا رأي له في غيره، وذو الهوى أسير هواه لا يقدر على مخالفته)
ضرر الجاهل أشد وأنكى على المجتمع من غيره، وقد قيل: (عداوة العاقل أقل ضرراً من مودة الجاهل)، لماذا؟ لأن الأحمق ربما ضر وهو يقدر أن ينفع، والعاقل لا يتجاوز الحد في مضرته، فمضرته لها حد يقف عليه العقل، ومضرة الجاهل ليست بذات الحد، والمحدود أقل ضرراً ما هو غير محدود

و بعث الله الأنبياء في كل مجتمع كي يعلمونهم الكتاب والحكمة.
ولما بعث النبي (صلي الله عليه وسلم) فقال: هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّيِّينَ رَسُولًا مِّنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِن كَانُوا مِن قَبْلُ لَفِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ (2) 

ومعلوم لدى كل مسلم أن أول ما نزل من القرآن على المختار صلى الله عليه وسلم قول الله تعالى: ﴿ اقْرَأْ ﴾ ، وهذا يدل دلالة واضحة على أن الإسلام يحث المسلمين على طلب القراءة والتعلم والبحث العلمي، لأجل الوصول إلى كل ما هو نافع ومجدي، وهذا من أهم ما يسعى إليه ديننا الحنيف، فليحرص كل مسلم على ذلك، بل إن من واجب أهل الحسبة الأخذ على أيدي الجهلة والأُميين في التعلم وطلب القراءة والكتابة، وانتشالهم من مهاوئ الجهل والتخلف.

وذهاب العلم وانتشار الجهل في الأمة كما أخبر رسول الله صلى الله عليه وسلم لا يكون إلاَّ بموت العلماء، فيضطر الناس إلى أن يتخذوا رؤوساً جهالاً لسؤالهم وطلب الفتيا منهم، فيفتونهم بغير علم فيكون سبباً في ضلالهم، فعن عبد الله بن عمرو بن العاص رضي الله عنه قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: ((إنَّ الله لا يقبض العلم انتزاعاً ينتزعه من العباد، ولكن يقبضُ العلمَ بقبض العلماء، حتى إذا لم يبقِ عالماً اتَّخذ الناس رؤوساً جُهَّالاً، فسُئِلوا، فأفتوا بغير علم فضلوا وأَضلُّوا)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

عید ‏سعید ‏پر ‏دل ‏کی ‏کیفیت

__________________نالۂ دل___________________ کاش کہ دو دل ہوتے سینے میں ایک خوشی میں ہنستا اور دوسرا روتا غم میں!! آنکھ کھلی  تو سوچا نہا کر عید کے لیے نئے جوڑے کا انتخاب کروں، اور اسے زیب تن کرکے عطر میں ملبوس ہوکر عید کی نماز پڑھوں، اور دوستوں کے ساتھ ملکر خوشیاں بٹوروں، عید ہونے کی خوشی اتنی تھی کہ فورا بستر سے اٹھکر حمام تک پہچ گیا اور چند ہی منٹوں میں خوشی کی غسل سے فراغت حاصل کر لی ،پانی کی ٹھنڈک نے شاید  دل و دماغ کو ٹھنڈا کر دیا، جس سے ذہن بیتے لمحوں اور حادثات کو ازسر نو حاشیہ خیال پر لانے کا پروسس شروع کر چکا تھا جو کے چند لمحوں کی  نیند کے سبب ذہن کے پردوں سے اوجھل ہو چکا تھا ، اور آرام دہ نیند نے کچھ گھنٹوں کے لیے جسم و جاں کو آرام بخشا تھا ،پھر کیا جیسے ہی نئےجوڑے کی طرف ہاتھ بڑھایا دماغ نے فورا دل کو ایک زور کا جھٹکا دیا اور آنکھوں کے سامنے مظلوم فلسطینیوں اور غاصب و ظالم اسرائیل کے مابین ہوئے حادثات و واقعات گردش کرنے لگے  ”ان کی عید کیسی ہوگی  جو بچے اپنے والدین کو اپنی آنکھوں کے سامنے اسرائلی ظلم وجبر  کا شکار ہوتے ہوے دیکھ رہے ہیں؟ !! اب وہ کس کے ساتھ  عید پڑھنے چلیں

یہ ‏ضعف ‏کا ‏عالم ‏ہے ‏کہ ‏تقدیر ‏کا ‏لکھا

         میں لکھنے کا عادی نہیں اور ناہی کوئی لکھاری ہوں ،لیکن کبھی کبھی جبرا لکھنا ہوتا ہے ،کلیہ کی طرف سے لکھنے کا کام ملتا ہے ،نا چاہ کر بھی محض نمبرات کے لیے  قرطاس سیاہ کرنا  ہوتا ہے ،اس سال بھی اسائمنٹ لکھنا تھا ،فلسطین کے تازہ ترین حالات پر  ہی ایک چھوٹا سا مضمون قلم بند کرنا تھا جمع کرنے کی تاریخ قریب آگئی تو  قلم اٹھایا سوچا لکھوں ۔۔۔ لیکن کیا لکھوں ؟؟۔۔۔۔فلسطین ۔۔۔۔ کوئی قصہ عشق ہو تو لکھوں ،کسی شہزادی کی داستان ہو تو لکھوں ،تحریر کے لئے چاہیے کوئی سلگتا عنوان، کوئی اختلافی موضوع، یا کوئی سنسنی خیز خبر جیسے سیلیبریٹی کا قتل، سیاسی الٹ پھیر یا کوئی ایکسیڈینٹ ۔ یا پھر تحریر کے لئے حسن و عشق چاہیے۔ ہائی پروفائلڈ محبوبہ کی رنگین زلفوں کا اسیر مجنوں، محبت میں ناکام عاشق کی دیوانگی یا یک طرفہ محبت کا دردناک انجام، غزہ کے ان بھوکے ،بے گھر ،ستائے ہوئے، مظلوموں کے بارے میں کیا لکھوں ،جن پر خود ان کے اپنے منھ نہیں کھولتے ،جن پر اقوام متحدہ ترس نہیں کھاتی ،امن کے نمائندے جن کی نمائندگی نہیں کر رہے ہیں!! کسی کتاب یا مضمون کا خلاصہ کرنا ہوتا تو کرتا ،یہ ستر سالہ مظلومیت کی داستان کا خلاصہ

نہ من تنہا در یں خانہ مستم

اکیسوی صدی کی شروعات ہی کافی تیز رفتاری سے ہوئی۔  اگر اس کو ترقی کی صدی کہوں تو شاید غلط نہ ہو جہاں ہر چیز کافی تیز رفتاری سے ترقی پذیر ہو رہی ہے۔ جتنے زرائع ہر شئے کے لئے اس صدی میں ہیں پچھلی کسی  صدی میں موجود نہ تھے۔  وقت کے ساتھ ساتھ انسان نے  اپنے نا صرف طرز زندگی کو بدلا بلکے برتاو و معاملات کے طریقوں میں بھی کافی تبدیلی کی۔ گاؤں دیکھتے دیکھتے کب کسبہ اور کسبہ شہر میں تبدیل ہو گیا کسی کو احساس نہ ہوا۔ اس نئے دور نے شہر کی پوری تصویر ہی بدل دی۔ ہر ملک میں ہائی وے، سبوے، میٹرو، لگزری گاڑیاں اور موڈرن بس اب عام بات ہے۔ کیوں کہ ہر میدان نے اپنے ترقی کا دائرہ وسیع کر لیا ہے۔         لیکن اس ترقی پسند دور میں ابھی بھی ایک قوم ایسی ہے جو صدیوں سے اب تک وہیں ہے جہاں سے اس کا جنم ہوا تھا۔ اس قوم کے افراد میلے کچیلے پھٹے لباس میں کھالی جھولیاں اور آنکھوں میں ہم سے امیدیں لئے کبھی کسی ہائی وے کے موڑ پر ، کبھی میٹرو کے گیٹ پر تو کبھی بس یا ریلوے اسٹاپ پر مل جاتے ہیں۔ یہ وہ قوم ہے جن کو کوئی جانتا نہیں، جن کے پاس رہنے کو گھر ، کھانے کو روٹی اور پہننے کو لباس نہیں ہوتے۔ جن کا وجود حکو