پنج تن نے رات میں بیٹھے بیٹھے قناۃ خیریہ کا پروگرام بنایا اور صبح ہوتے ہوتے تین لوگوں کےاضافے سے آٹھ لوگوں کی مشترکہ جماعت بن گئی جوکھانے پینے کی ضروریات کے ساتھ قناۃ خیریہ کے سیر کو نکل چکی۔
سیر وتفریح چونکہ مختلف مقاصد کے تحت ہوا کرتی ہے اور خاص کر جہاں مختلف افراد ہوں وہاں مقاصد میں تنوع ہونا لازمی ہے لیکن اس سفر میں کشتی کی سواری ایک مشترک تفریح تھی جس کے غالبا سبھی مشتاق تھے۔
کشتی نامہ
مصر کی زینت دریائے نیل بھی ہے اور نیل کی شام "کشتی کی سواری »کا استعارہ بھی جو کافی دلچسپ اور پر لطف ہوتاہے لیکن ہر چیز کی ایک مقدار ہوتی ہے اس کے آگے پھر اچھی نہیں لگتی یہی آج ہمارے ساتھ بھی ہوا ,ہم لوگ پورے جوش وخروش کے ساتھ کشتی میں سوار ہوئے اور کچھ لمحے خوب مزے لوٹے لیکن اگلے ہی لمحے اکتاہٹ کے شکار ہو گئے۔
اس اکتاہٹ کی ایک وجہ تو کشتی کا لمبا سفر تھا جو تقریباً دو سے ڈھائی گھنٹے پر محیط تھا اور دوسری بڑی وجہ مصری گانے جو ڈی جے کے ساتھ بجائے جارہےتھے۔
یہ گانے ہندوستانی گانوں سے بالکل مختلف, ان کے سر تال تو کم از کم ہم ہندوستانیوں کے سر سے ماورا تھے. کئی بار دل میں آیا کہ منع کردوں لیکن دوسرے ہی لمحے خیال آتا کہ اور بھی مصری ہیں ان کا حق مارا جایےگا اور یہ منع کرنے پہ بھی نہیں رکیں گے پھر کیا دل ہی دل میں مصریوں کے ذوق سماع کا ماتم کرتے رہے اور کسی طرح منزل تک پہنچ ہی گیے
پھر ہم لوگوں نے اپنا کھانا کھایا جو ہم لوگ ساتھ میں لیکر آئے تھے۔
دوپہر کے کھانے نے جب کچھ توانائی فراہم کردی تو دوستوں کا ارادہ بنا کہ اب اس قناۃ کا پیدل جائزہ لیا جائے اس کی مختلف تفریحات سے لطف اٹھایا جایے۔
عزم مصمم تھا گھومنے سبھی ایے تھے۔
پھر کیا ایک دوسرے کی تفریح لیتے ہوئےنکل پڑے۔
تھوڑی دیر چلنے کے بعد احساس ہونے لگا کہ الات تفریح اطمینان قلبی کے لئے نا کافی ہیں کیوں کہ ان میں یا تو تخلف زمانی کا اثر تھا یا ہمارے مزاج سے ہم آہنگ نہیں ہو پائے۔
پھر کیا اطمینان قلبی کے لئے اللہ کے گھر کی تلاش شروع ہوئی جو کچھ دیر کے بعد اک صاحب دل کی ہدایت پہ پایہ تکمیل کو پہچی۔
دوستوں نے ظہر کی نماز ادا کیا جس میں امامت مفتی زین صاحب کے ذمہ آیی۔ نماز کے بعد ہم لوگ بہاو دیکھنے نکل گئے پانی کی شفافیت اور بہاو کا منظر دیکھکر کچھ لوگ اپنے آپ کو روک نہیں پائے اور نہانے کے لئے کو د پڑے کچھ دیر خوب مستی میں نہاے دھوئے رحلہ کا پیسہ وصول کئے اور پھر جہاں کشتی پکڑنی تھی لوٹ آئے کافی دیر آرام کرنے کے بعد مغرب کی نماز کے ایک گھنٹے بعد ہماری روانگی ہوئی. روانگی چونکہ کشتی سے ہونی تھی اس لئے پورا سفر کشتی میں بجنے والے گانوں کی مذمت میں کٹتا رہا اور بااخیر رب کے فضل سے گیارہ بجے تک ہم لوگ اپنے مقام پہ پہچ گئے۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں