آج پہلی بار کلیہ گیا ،مجھے بہت جھجھک محسوس ہورہی تھی ،راستے میں طرح طرح کے خیالات ابھر رہے تھے ،ویسے بھی مجھے پہلی بار کچھ کرنے میں کافی ہمت جٹانی ہوتی ہے ،خیر کچھ دیر اپنے سر کے الجھاؤ میں الجھ کر کلیہ پہچ ہی گیا ،صدر دروزے سے انٹری کرتے ہی ملازم کا سامنا ہوا اس کے برتاؤ سے لگا کہ وہ میرا ہی انتظار کر رہا تھا اب جاکر میری انقباض قلبی دور ہوتی گئی ، اور میں حساس و بشاشیت کے ساتھ کلاس میں پہچا ،درس گاہ میں طلبہ کی بھیڑ نے میری کمر توڑ دی قریب آدھا گھنٹہ دروازے پہ کھڑے ہوکر محاضرہ سننا پڑا ،جس کی وجہ سے دماغ نے سوالات کا پٹارا کھول دیا
کیا ہر روز اتنے طلبہ آتے ہیں ؟
کلاس کو گروپ میں کیوں نہیں باٹ دیا گیا ؟
ہاے دو ڈھائی سو طلبہ کے مابین صرف تین یا چار پنکھے ؟
یہ لوگ مائک کا استعمال کیوں نہیں کرتےہیں ؟
خیر محاضرہ ختم ہوا اسٹوڈنٹ باہر نکلنے شروع ہوئے ،اور مجھے اندر جانے کی اجازت مل گئی جگہ پاتے ہی میں بیٹھ گیا اگل بغل والے سے مختصر سا تعارف ہوا پھر ایک شخص آیے اور محاضرے کی کرسی پہ بیٹھ گیے طلبہ ان کی طرف متوجہ ہوئے اور آپ نے بولنا شروع کردیا ،اب تک میرا خیال تھا کہ یہ دکتو رہی ہیں لیکن پندرہ منٹ کی گفتگو کے بعد بھی جب مجھے ذہن پہ زور دیکر سمجھنا پڑا تو مجھے شک ہونے لگا کہ یہ دکتور نہیں ہے پھر بغل میں بیٹھے شخص نے میرے شک کو یقین میں بدلا اور مجھے کچھ راحت ملی ،
کلاس چونکہ 5بجے تک کی تھی جو میرے حق میں کافی لمبا وقت تھا اس لیے مجھے انٹرول میں ہی آنا پڑا۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں