نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

اشاعتیں

یہ ‏ضعف ‏کا ‏عالم ‏ہے ‏کہ ‏تقدیر ‏کا ‏لکھا

         میں لکھنے کا عادی نہیں اور ناہی کوئی لکھاری ہوں ،لیکن کبھی کبھی جبرا لکھنا ہوتا ہے ،کلیہ کی طرف سے لکھنے کا کام ملتا ہے ،نا چاہ کر بھی محض نمبرات کے لیے  قرطاس سیاہ کرنا  ہوتا ہے ،اس سال بھی اسائمنٹ لکھنا تھا ،فلسطین کے تازہ ترین حالات پر  ہی ایک چھوٹا سا مضمون قلم بند کرنا تھا جمع کرنے کی تاریخ قریب آگئی تو  قلم اٹھایا سوچا لکھوں ۔۔۔ لیکن کیا لکھوں ؟؟۔۔۔۔فلسطین ۔۔۔۔ کوئی قصہ عشق ہو تو لکھوں ،کسی شہزادی کی داستان ہو تو لکھوں ،تحریر کے لئے چاہیے کوئی سلگتا عنوان، کوئی اختلافی موضوع، یا کوئی سنسنی خیز خبر جیسے سیلیبریٹی کا قتل، سیاسی الٹ پھیر یا کوئی ایکسیڈینٹ ۔ یا پھر تحریر کے لئے حسن و عشق چاہیے۔ ہائی پروفائلڈ محبوبہ کی رنگین زلفوں کا اسیر مجنوں، محبت میں ناکام عاشق کی دیوانگی یا یک طرفہ محبت کا دردناک انجام، غزہ کے ان بھوکے ،بے گھر ،ستائے ہوئے، مظلوموں کے بارے میں کیا لکھوں ،جن پر خود ان کے اپنے منھ نہیں کھولتے ،جن پر اقوام متحدہ ترس نہیں کھاتی ،امن کے نمائندے جن کی نمائندگی نہیں کر رہے ہیں!! کسی کتاب یا مضمون کا خلاصہ کرنا ہوتا تو کرتا ،یہ ستر سالہ مظلومیت کی داستان کا خلاصہ

عید ‏سعید ‏پر ‏دل ‏کی ‏کیفیت

__________________نالۂ دل___________________ کاش کہ دو دل ہوتے سینے میں ایک خوشی میں ہنستا اور دوسرا روتا غم میں!! آنکھ کھلی  تو سوچا نہا کر عید کے لیے نئے جوڑے کا انتخاب کروں، اور اسے زیب تن کرکے عطر میں ملبوس ہوکر عید کی نماز پڑھوں، اور دوستوں کے ساتھ ملکر خوشیاں بٹوروں، عید ہونے کی خوشی اتنی تھی کہ فورا بستر سے اٹھکر حمام تک پہچ گیا اور چند ہی منٹوں میں خوشی کی غسل سے فراغت حاصل کر لی ،پانی کی ٹھنڈک نے شاید  دل و دماغ کو ٹھنڈا کر دیا، جس سے ذہن بیتے لمحوں اور حادثات کو ازسر نو حاشیہ خیال پر لانے کا پروسس شروع کر چکا تھا جو کے چند لمحوں کی  نیند کے سبب ذہن کے پردوں سے اوجھل ہو چکا تھا ، اور آرام دہ نیند نے کچھ گھنٹوں کے لیے جسم و جاں کو آرام بخشا تھا ،پھر کیا جیسے ہی نئےجوڑے کی طرف ہاتھ بڑھایا دماغ نے فورا دل کو ایک زور کا جھٹکا دیا اور آنکھوں کے سامنے مظلوم فلسطینیوں اور غاصب و ظالم اسرائیل کے مابین ہوئے حادثات و واقعات گردش کرنے لگے  ”ان کی عید کیسی ہوگی  جو بچے اپنے والدین کو اپنی آنکھوں کے سامنے اسرائلی ظلم وجبر  کا شکار ہوتے ہوے دیکھ رہے ہیں؟ !! اب وہ کس کے ساتھ  عید پڑھنے چلیں

رمضان ‏في ‏أفق ‏الهند

من الفطرة الاهتمام بالمهمة والاستعداد لها قبل مجيئها،كي لايفوت أوان الفرصة ولا يحرم الانسان من رحمتها،وقدوم رمضان أفضل رحمة من عندالله لأن الله تعالى لم يعين جزائه بل قال أنااجزى به كما جاء فى الحديث الشريف :"الصوم لي وأنا أجزي به"اذا الصوم عبادة لا مثيل له ،لذا تستقبله الأمة الاسلامية فى أنحاء العالم و تنتظره بكل الحماسة و القوة مع الفرح والسرور، و يستعدون له ذهنا و فكرا ويبذلون جهدهم لكسب رضا ربهم سواء من الدول الاسلامية أو غيرها ، لكن هناك فرق فى العادات و الطقوس لاستقبال رمضان و قضائه  بين الدول الاسلامية وغيرها بسبب الفروق الحضارية .  والدولة الهندية (كما تعرف)دولة ديمقراطية ،ملتقى الثقافات ،ومفترق الحضارات،و حاضنة الطقوس و العادات ،وثاني أكبر دولة بحسب عدد السكان،يشكل فيها الهندوسيون نسبة عملاقة والمسلمون نسبة ضئيلة ١٥٪     )لذا تمتاز الدولة في رمضان بالعادات الأنيقة و الأفعال الغريبة ،وتظهر فى رمضان الأخوة الأنسانية ،والتضامن ،والتراحم ،والتسامح،أكثر من الأشهر الأخرى. يمكن لك أن ترى شعبا يعيش مع العادات الجميلة ،والفكرة الأنيقة ،فيبذلون جهدهم لتعود الى بلادهم حمائم الا

Islamic World Introduction(عالم ‏اسلام ‏ایک ‏تعارف)

عالم اسلام کا مفہوم مشہور سوری مؤرخ محمود شاکر صاحب -1932»2014-اپنے ایک مضمون میں رقم طراز ہیں :"عالم اسلام ایک جدید اصطلاح ہے ،جس کے استخدام پہ زیادہ سے زیادہ سو سال کا عرصہ ہی گزرا ہوگا؛یہ اس وقت کی بات ہے جب یورپی فوجیوں کا غلبہ ،مسلم اکثریتی علاقوں سے ختم ہونے لگاتھا،تب مغربی صلیبیوں نے اپنی فکری اور علمی قوتیں مسلم معاشرے کی تحقیق و جستجو میں لگادیں؛تاکہ مسلمانوں کی طاقت اور کمزوریوں کا پتا لگا سکیں، اور طاقت کے زور پہ قابض ہونے کے بجائے فکری طور پہ امت مسلمہ کو مفلوج اور مغلوب کر سکے،وہ اپنے مطالعہ اور دراسہ کے ذریعے اس نتیجے پہ پہچے ،کہ مسلمانوں کے مابین بھلے ہی کچھ اختلافات ہیں ،مگر یہ ایک مضبوط و مستحکم اور متحداسلامی تصور کے ساتھ جڑے ہوئے بھی ہیں ؛اس لیے انہوں نے ان ریا ستوں کو جہاں مسلمان زیادہ تر آباد تھے عالم اسلام سے تعبیر کرنا شروع کر دیا ۔(العالم الإسلامي اليوم ،دارالصحوة للنشر والتوزيع،القاهره،ط،١-١٩٨٥م-ص،٤) دیگر مؤرخین اور علامہ صاحب کی رائے سے اتفاق کریں ، تو یہ اصطلاح مستشرقین کی ایجاد ہے ،جسے علمائے اسلام نےمستعار لیا ،کیوں کہ ان علاقوں کے لیے اس س

تنقید ‏برائے ‏اسلام ‏

نقد اگر غیر جانب دارانہ ہو تو محمود اور اگر ناقد متعصب ہو تو نقد مذموم اور باعث فساد ،اج کل لوگ خاصکر مغرب میں دھر لے سے اسلام اور مسلمانوں پر نقد کر رہے ہیں ،جیسا کہ ابھی حال میں فرانسیسی صدر ماکرون نے کہا کہ اسلام بحران کا شکار ہے ۔ اسی طرح اور بھی حضرات ہیں ،جن میں سے اکثر وہ ہیں جو صرف تعصب میں  اسلام اور مسلمانوں پر تنقید کر رہے ہیں ،اور یہ میں نہیں کہتا بلکہ ایک بڑے  جرمن مورخ وولفانگ بینز کا کہنا ہے :" کہ یورپ میں "تنقید برائے اسلام" کی اصطلاح استعمال کرنے والوں میں سے بہت سے لوگ، ( سائنسی طور پر ایسا کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں)عام طور پر مسلمان مخالف رویوں کو چھپاتے اور غیر جانبدار رہنے کی بجائے دقیانوسی تصورات کا حق ادا کرتے ہیں۔ اس بات کی تصدیق ایک لبنانی سیاسی محرر رضوان سید کے واقعہ سے بھی ہوتی ہے وہ لکھتے ہیں کہ جب سنہ 2004میں شیراک نے حجاب کے خلاف بیان دیا جس کے بعد فرانس میں باضابطہ حجاب پر پابندی لگادی گئی ،تب ایک روز میری اور شیراک کی ملاقات ہوئی تو میں نے ان سے سوال کیا کہ حجاب عورتیں پہنتی ہیں وہ تو اس تعلق سے شدت نہیں کر رہی ہیں ،آپ کیوں اس طرح  شدت سے پی

Criticism of Islam ( انتقاد الإسلام)

    بعض الناقدين يدعون أنهم غير متعصبين لكن عملهم   يظهر العصبية الخفية ،كما هو الحال للناقدين الغربين للإسلام ،وهذا هو الانكشاف الجدىد من قبل المؤرخ الشهير وولفانغ بينزلقد قال في تصريحات صحفية :إن العديد من أولئك الذين يستخدمون مصطلح"انتقاد الإسلام"في اوروبا، و يزعمون أنهم يفعلون ذالك علميا،يخفون عادة المواقف المعادية للمسلمين و يفضلون القوالب النمطية بدلامن أن يحافظوا على الحياد. The German historian Wolfgang Benz said in press statement that many of those who use the term “criticism of Islam ”in Europe ,and claim to do so scientifically ,usually conceal anti-Muslim attitudes and favor stereotypes instead of remaining impartial. و هذا صحيح أنه من كان يجد الفرصة يرمي السهم إلى الإسلام والمسلمين بغير علة ،لقد ذكر هناك كاتب أكاديمي سياسي لبناني رضوان السيد واقعة" أن في سنة 2004خطب شيراك ضد الحجاب،و أصدرالبرلمان الفرنسي قانونا بهذالشأن،فقلت له :الحجاب للنساء وهن لايمارسن العنف،فلماذا هذا التحريم والتجريم ؟فقال شيراك يافلان لا ذنب للمسلمين والمسلمات إلا أ

میرا ‏قانون ‏کس ‏کو ‏سزا ‏دیتا ‏ہے

6دسمبر 1992 کو مسلمان جس طرح بےبسی کے شکار تھے ،اور جتنی زیادہ مسلمانوں کی عزت و حرمت پامال ہوئی تھی بالکل اسی طرح آج مسلمان شرم شار اور بے بس نظر آرہے ہیں ،انہیں محسوس ہو رہا ہے کہ اب ہماری عزتیں سرے عام نیلام ہونگی ،اور ہمیں  کوئی انصاف دینے والا نہیں ملے گا کیوں کہ جس گھر سے وہ  انصاف کی امیدیں وابستہ کئے ہوئے تھے کل اسی گھر نے اسے اوندھے منھ گرایا ہے  خود اپنے اعتبار سے شرما گیا ہوں میں  کل کے فیصلے سے صرف مسلمانوں کی حق تلفی ہی نہیں بلکہ ،اس کی عزت نفس ،اس کا ضمیر ،اور اس کا وسواس سب کچل دیا گیا ہے ۔ اور یہ فیصلہ عدالت کے لیے بھی ایک سیاہ فیصلہ ہے کیوں کہ یہ بالکل نا انصافی  ہے ۔ سی بی آئی کو اپنی آزادی برقرار رکھنے کے لیے اس فیصلے کے خلاف آواز بلند کرنی چاہیے اور ساتھ میں مسلم پرسنل لا بورڈ کو بھی چاہیے کہ وہ اس فیصلے کے خلاف عدالت عالیہ میں عرضی ڈالے کیوں کہ ہمیں آج بھی اپنی عدالتوں سے انصاف کی امید ہے ،یہ اور بات ہے کہ اب ہماری عدالتوں سے مجرمین کو سزا کے بجائے جزا ملنی شروع ہوگئی ہیں ۔ حیرت کی بات کہ جس انہدام کے لیے اتنی ریلیاں نکالی گئیں ،جس کے بعد ملک بھر میں فس

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

عید ‏سعید ‏پر ‏دل ‏کی ‏کیفیت

__________________نالۂ دل___________________ کاش کہ دو دل ہوتے سینے میں ایک خوشی میں ہنستا اور دوسرا روتا غم میں!! آنکھ کھلی  تو سوچا نہا کر عید کے لیے نئے جوڑے کا انتخاب کروں، اور اسے زیب تن کرکے عطر میں ملبوس ہوکر عید کی نماز پڑھوں، اور دوستوں کے ساتھ ملکر خوشیاں بٹوروں، عید ہونے کی خوشی اتنی تھی کہ فورا بستر سے اٹھکر حمام تک پہچ گیا اور چند ہی منٹوں میں خوشی کی غسل سے فراغت حاصل کر لی ،پانی کی ٹھنڈک نے شاید  دل و دماغ کو ٹھنڈا کر دیا، جس سے ذہن بیتے لمحوں اور حادثات کو ازسر نو حاشیہ خیال پر لانے کا پروسس شروع کر چکا تھا جو کے چند لمحوں کی  نیند کے سبب ذہن کے پردوں سے اوجھل ہو چکا تھا ، اور آرام دہ نیند نے کچھ گھنٹوں کے لیے جسم و جاں کو آرام بخشا تھا ،پھر کیا جیسے ہی نئےجوڑے کی طرف ہاتھ بڑھایا دماغ نے فورا دل کو ایک زور کا جھٹکا دیا اور آنکھوں کے سامنے مظلوم فلسطینیوں اور غاصب و ظالم اسرائیل کے مابین ہوئے حادثات و واقعات گردش کرنے لگے  ”ان کی عید کیسی ہوگی  جو بچے اپنے والدین کو اپنی آنکھوں کے سامنے اسرائلی ظلم وجبر  کا شکار ہوتے ہوے دیکھ رہے ہیں؟ !! اب وہ کس کے ساتھ  عید پڑھنے چلیں

یہ ‏ضعف ‏کا ‏عالم ‏ہے ‏کہ ‏تقدیر ‏کا ‏لکھا

         میں لکھنے کا عادی نہیں اور ناہی کوئی لکھاری ہوں ،لیکن کبھی کبھی جبرا لکھنا ہوتا ہے ،کلیہ کی طرف سے لکھنے کا کام ملتا ہے ،نا چاہ کر بھی محض نمبرات کے لیے  قرطاس سیاہ کرنا  ہوتا ہے ،اس سال بھی اسائمنٹ لکھنا تھا ،فلسطین کے تازہ ترین حالات پر  ہی ایک چھوٹا سا مضمون قلم بند کرنا تھا جمع کرنے کی تاریخ قریب آگئی تو  قلم اٹھایا سوچا لکھوں ۔۔۔ لیکن کیا لکھوں ؟؟۔۔۔۔فلسطین ۔۔۔۔ کوئی قصہ عشق ہو تو لکھوں ،کسی شہزادی کی داستان ہو تو لکھوں ،تحریر کے لئے چاہیے کوئی سلگتا عنوان، کوئی اختلافی موضوع، یا کوئی سنسنی خیز خبر جیسے سیلیبریٹی کا قتل، سیاسی الٹ پھیر یا کوئی ایکسیڈینٹ ۔ یا پھر تحریر کے لئے حسن و عشق چاہیے۔ ہائی پروفائلڈ محبوبہ کی رنگین زلفوں کا اسیر مجنوں، محبت میں ناکام عاشق کی دیوانگی یا یک طرفہ محبت کا دردناک انجام، غزہ کے ان بھوکے ،بے گھر ،ستائے ہوئے، مظلوموں کے بارے میں کیا لکھوں ،جن پر خود ان کے اپنے منھ نہیں کھولتے ،جن پر اقوام متحدہ ترس نہیں کھاتی ،امن کے نمائندے جن کی نمائندگی نہیں کر رہے ہیں!! کسی کتاب یا مضمون کا خلاصہ کرنا ہوتا تو کرتا ،یہ ستر سالہ مظلومیت کی داستان کا خلاصہ

نہ من تنہا در یں خانہ مستم

اکیسوی صدی کی شروعات ہی کافی تیز رفتاری سے ہوئی۔  اگر اس کو ترقی کی صدی کہوں تو شاید غلط نہ ہو جہاں ہر چیز کافی تیز رفتاری سے ترقی پذیر ہو رہی ہے۔ جتنے زرائع ہر شئے کے لئے اس صدی میں ہیں پچھلی کسی  صدی میں موجود نہ تھے۔  وقت کے ساتھ ساتھ انسان نے  اپنے نا صرف طرز زندگی کو بدلا بلکے برتاو و معاملات کے طریقوں میں بھی کافی تبدیلی کی۔ گاؤں دیکھتے دیکھتے کب کسبہ اور کسبہ شہر میں تبدیل ہو گیا کسی کو احساس نہ ہوا۔ اس نئے دور نے شہر کی پوری تصویر ہی بدل دی۔ ہر ملک میں ہائی وے، سبوے، میٹرو، لگزری گاڑیاں اور موڈرن بس اب عام بات ہے۔ کیوں کہ ہر میدان نے اپنے ترقی کا دائرہ وسیع کر لیا ہے۔         لیکن اس ترقی پسند دور میں ابھی بھی ایک قوم ایسی ہے جو صدیوں سے اب تک وہیں ہے جہاں سے اس کا جنم ہوا تھا۔ اس قوم کے افراد میلے کچیلے پھٹے لباس میں کھالی جھولیاں اور آنکھوں میں ہم سے امیدیں لئے کبھی کسی ہائی وے کے موڑ پر ، کبھی میٹرو کے گیٹ پر تو کبھی بس یا ریلوے اسٹاپ پر مل جاتے ہیں۔ یہ وہ قوم ہے جن کو کوئی جانتا نہیں، جن کے پاس رہنے کو گھر ، کھانے کو روٹی اور پہننے کو لباس نہیں ہوتے۔ جن کا وجود حکو