نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

Islamic World Introduction(عالم ‏اسلام ‏ایک ‏تعارف)


عالم اسلام کا مفہوم
مشہور سوری مؤرخ محمود شاکر صاحب -1932»2014-اپنے ایک مضمون میں رقم طراز ہیں :"عالم اسلام ایک جدید اصطلاح ہے ،جس کے استخدام پہ زیادہ سے زیادہ سو سال کا عرصہ ہی گزرا ہوگا؛یہ اس وقت کی بات ہے جب یورپی فوجیوں کا غلبہ ،مسلم اکثریتی علاقوں سے ختم ہونے لگاتھا،تب مغربی صلیبیوں نے اپنی فکری اور علمی قوتیں مسلم معاشرے کی تحقیق و جستجو میں لگادیں؛تاکہ مسلمانوں کی طاقت اور کمزوریوں کا پتا لگا سکیں، اور طاقت کے زور پہ قابض ہونے کے بجائے فکری طور پہ امت مسلمہ کو مفلوج اور مغلوب کر سکے،وہ اپنے مطالعہ اور دراسہ کے ذریعے اس نتیجے پہ پہچے ،کہ مسلمانوں کے مابین بھلے ہی کچھ اختلافات ہیں ،مگر یہ ایک مضبوط و مستحکم اور متحداسلامی تصور کے ساتھ جڑے ہوئے بھی ہیں ؛اس لیے انہوں نے ان ریا ستوں کو جہاں مسلمان زیادہ تر آباد تھے عالم اسلام سے تعبیر کرنا شروع کر دیا ۔(العالم الإسلامي اليوم ،دارالصحوة للنشر والتوزيع،القاهره،ط،١-١٩٨٥م-ص،٤)
دیگر مؤرخین اور علامہ صاحب کی رائے سے اتفاق کریں ، تو یہ اصطلاح مستشرقین کی ایجاد ہے ،جسے علمائے اسلام نےمستعار لیا ،کیوں کہ ان علاقوں کے لیے اس سے  بہتر نام ملنا مشکل تھا ،یا اس نام کا اب تک کوئی سائڈ ایفکٹ ظاہر نہیں ہوا۔
علامہ صاحب کے رائے کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے، کہ یورپ کے بعض علاقوں میں ١٩ویں صدی میں بعض علمی رسالے "العالم الاسلامي“کے نام سے چھپتے تھے ۔
خیر اصطلاح چاہے جس کی بھی ایجاد ہو مقصود یہ ہے کہ" عالم اسلام “اس منطقے کے لیے مستعمل ہے، جسے مسلمانوں نےاکثریت کے ساتھ اپنا وطن بنایا ہوا ہے۔حالانکہ عالم اسلام اپنی حساسیت کی بنا پہ دیگر مفاہیم میں بھی مستعمل ہے ،لیکن علم جغرافیہ اور معاصر ادبیات میں یہی مفہوم رائج ہے ۔ 
یہ بات بالکل یقینی ہے ،کہ آج ہم بھلے ہی مختلف وحدتوں اور ریاستوں میں بٹے ہوئے ہیں ،ہماری قومیت بھلے ہی الگ الگ ہے ،مگر تصور اسلام اور وحدت امت ہمیں ایک مالے میں پرو دیتا ہے ۔
مگر بڑے دکھ کی بات ہے !!!!کہ جس وحدت کا اقرار غیر بھی کرتے ہیں، اور اسی کی معیار پہ وہ اپنا لائحہ عمل متعین کرتے ہیں ،آج ہم اسی وحدت اور نقطئہ اجتماع کو پارہ پارہ کرنے پہ تلے ہوئے ہیں ۔ہم اپنے دینی بھائیوں کو ذرا ذرا سی اختلافات کی بنا پہ وحدت اسلام سے نکال باہر کئے دیتے ہیں !!!خدارا اس وحدت کے نقطئہ آغاز و انتہا کی اہمیت کو سمجھیں ،اور اسی لحاظ سے اپنے طرز زندگی کو ہموار کریں ۔

عالم اسلام کی طبعی خصوصیت واہمیت
کسی بھی خطے کی اہمیت اس کے عوامل طبعیہ پہ منحصر ہوتی ہے ،اگر وہ خطہ طبعی طور پہ متناسب ہے تو اس خطے کی ذاتی و عالمی (محلی /خارجی)دونوں ہی اہمتیں بڑھ جاتی ہیں ۔
عالم اسلام بھی اپنی عوامل طبعیہ (مقام ،حجم،شکل )تینوں میں متناسب ہے ۔

عالم اسلام کا فلکی اور بحری مقام (Astronomical and Maritime Location)
عالم اسلام ١٣ڈگری جنوب سے ٥٤ڈگری شمال تک پھیلا ہوا ہے ،جس کی پیمائش تقریبا ٦٢٠٠کیلو میٹر ہے۔
اور اس کی لمبائی تقریبا ١٩٠٠٠کیلو مٹر ہے (یعنی ٢٨ڈگری مغرب سے ١٤١ڈگری مشرق تک) ۔
یہ منطقہ اپنے بحری مقام میں بھی دیگر مناطق سے ممتاز ہے؛ کیوں کہ یہ تین محیطوں ١-محيط اطلنطي (٨٢مليون كم٢) ٢-محيط هندي (٧٣.٦م كم٢)٣-محيط هادي(١٦٦م كم ٢)سے متصل ہے ،اور ساتھ میں بحر احمر ،بحر اسود،اور بحر متوسط کا حسیں امتزاج بھی، اسی منطقے میں جاری اہم نہریں بھی ہیں :جیسے   نيل، دجلة ،فرات، نيجر، سند، وغيرہ ۔پھر اس پہ مستزاد مضائق (مندب ،جبل طارق ،بسفور،دردنیل،ہرمز،جزر القمر )اور خلیجیں (عربی ،عدن ،عمان)بھی اسی منطقے میں واقع ہیں  ۔
قرآن کریم میں امت اسلامیہ کے لئے امت وسط کا ٹائٹل استعمال ہوا ہے :"وكذالك جعلناكم أمة وسطا“(بقرہ:١٤٣)
اگر ہم عالم اسلام کے محل وقوع پہ غور کریں ،تو عالم اسلام بالفعل وسط میں نظر ائیگا( تبھی تو دراسات میں مشرق وسطی کو  (جوکہ عالم اسلام کا بیشتر حصہ ہے) قلب عالم سے تعبیر کرتے ہیں)؛کیوں کہ عالم اسلام جن فلکی دوائر کے مابین ہے (ارسطو کے تقسیم مناخ کے حساب سے)اس میں دو بڑے مناخ کا(climat)ورود ہوتا ہے، ١-حار اور ٢-معتدل جس کے ضمن میں مختلف موسم ہوتے ہیں ،یعنی یہ منطقہ نا تو کلی طور پہ گرم زون میں ہے اور ناہی ٹھنڈ زون میں بلکہ معتدل ہے ،اس کے بعض ممالک میں ٹھنڈی اور گرمی برابر پڑتی ہے اور بعض ممالک میں گرمی کی مقدار کچھ زیادہ ۔
اسی معتدل مناخ کی بنا پہ عالم اسلام میں اچھی خاصی زراعت ہو جاتی ہے ،کیوں کہ زراعت کے لئے جن عوامل کی ضرورت پڑتی  ہے ،ان میں مناخ ،پانی ،اور زمین (جو سطح سمندر سے بلندہو )بڑے عوامل میں سے ہیں ،اور یہ تینوں فکٹرز عالم اسلام میں مقدار بھر مہیا ہیں ۔اسی لیے ایک سرسی نظر عالم اسلام کےزرعی اور معدنی مواد پہ بھی ڈال لیتے ہیں ۔

زراعت اور عالم اسلام
عالم اسلام میں زراعت کے لیے کل 198ایکڑ زمین مہیا ہے ،جن میں سے فقط تہائی حصے میں زراعت ہوتی ہے ،جس میں تقریبا 70٪مسلمان زراعت کرتے ہیں اورتہائی دنیا کو غذا فراہم کرتے ہیں ، حبوب کے عالمی پیداوار میں 15٪عالم اسلام سے جاتا ہے ،جبکہ محاصیل نقدیہ 80٪
اسی طرح یہ منطقہ معدنیات سے بھی لبریز ہے

معدنیات اور عالم اسلام
عالم اسلام بہت سارے خام مادوں کا انتاج کرتا ہے جن میں کوپر، منجینز، ٹن، البوکسات،فاسفورڈ، رصاص، کرومونیوم، آئرن، جن میں بعض خام مادے بعض علاقوں میں کثرت سے پائے جاتے ہیں جیسے آئرن سب سے زیادہ موریتانیا میں پایا جاتا ہے ،بوکسات غینیا میں ،فحم ترکی میں فوسفارت مغرب میں ان سارے خام مادوں کے ساتھ عالم اسلام کی بڑی قوت تیل اور گیس ہے ،مغربی ایشیا کے اسلامی ممالک تیل اور گیس کی وجہ سے جانے جاتے ہیں ایک رپورٹ کے مطابق یہ ممالک یومیہ 15742ملین برمیل تیل نکالتے ہیں جن میں 50٪سعودیہ کا ہوتا ہے 

Wafic Grais, Central Asia: the Double Challenge of Development and
Transition, the World BanK, Report No. IDP- 00107, table 2. p 38.
عالم اسلام کے حجم اور شکل کی بات کریں، تو عالم  اسلام زمین کے ایک وسیع وعریض مساحت پہ پھیلا ہوا ہے۔جسے علما ئےجغرافیہ منطقہ( area )سے تعبیر کرتے ہیں ،جو لگ بھگ تین برے اعظموں پہ پھیلا ہوا ہے :
ایشیا جس میں تقریباً 27 ملک ہیں  أذربيجان، اردن، أوزبكستان، أفغانستان، متحدة عرب امارات، إنڈونيشيا، إيران، پاكستان، بحرين، برونائی ، بنگلاديش، تركي، تركمانستان، سعودية، سوريا، طاجكستان، عراق، عمان، فلسطين، قرگيزستان، قطر، كازاکستان، كويت،  مالديف، ملیشیا ، و يمن. 
افریقہ میں تقریباً 26 ممالیک ہیں: أوغندا، بنين، بوركينا فاسو، تشاد، تونس، جزائر، جزر القمر، جيبوتي، سنغال، سوڈان، سيراليون، صومال، طوغو، غابون، غامبيا، غينيا، غينيا بيساو، كاميرون، ليبيا، مالي، مصر، مغرب، موريتانيا، موزمبيق، نيجر، ونيجيريا.
 یورپ.البانیا.سورینام.
جن میں بعض ممالک ایسے ہیں جہاں اسلام کو ریاست اور آئین کے طور پہ اپنایا گیا ہے :جیسے افغانستان،ایران،موریتانیہ،سلطنت عمان،سعودی عرب،سوڈان،یمن۔
اور بعض ایسے ممالک ہیں جہاں مسلمان اکثریت میں ہیں اور ریاست اسلام کو سپورٹ کرتی ہے:جیسے جزائر،بحرین،برونائی،اتحادالقمری،جبوتی،مصر،عراق،اردن،کویت،مالیزیا،لیبیا،مالدیپ،مراکش،پاکستان،فلسطین،قطر،صحرائےعرب،تونس،صومالیہ،متحدہ عرب امارت۔
اور بعض ایسے ہیں جہاں قانونی طور پہ مذہب کا کوئی قانون نہیں ہے:جیسے انڈونیشیا،سوریہ،بنغلادیش۔
ان ممالک میں ابادی کے حساب سے سب بڑا ملک انڈونیشیا ہے جوکہ دنیا کا دوسرا بڑا ابادی والا ملک ہے ،دوسرے نمبر پہ پاکستان تیسرے پہ بنغلادیش۔
مساحت کے اعتبار سے سب سے بڑا کازخستان ہے ،جوکہ پوری دنیا میں گیارہویں نمبر پہ ہے ،دوسرے نمبر پہ سوڈان تیسرے پہ جزائر اور سب سے چھوٹا مالدیپ ہے۔
تمام مسلم ممالک کی اکانومی تقریبا 5.7ٹریلین ڈالر ہے ،جس میں سب بڑی اکانومی،انڈونیشیا کی ہے تقریبا 846بلین ڈالر،دوسرے نمبر پہ ترکی (775بلین)تیسرےپہ سعودیہ(577)چوتھے پہ ایران(500)۔
سب سے مالدار ملک قطر ہے دوسرے پہ کویت تیسرے پہ برونو،

(Economy of the ummah by sakib shirani)
عالم اسلام کی پیمائش  تقریباً 31688509مربع کیلو میتر ہے۔
اگر ہم عالم اسلام کی مساحت کو دوسرے وحدات سیاسی سے  مقارنہ کریں ، تو عالم اسلام کی مساحت  زیادہ  نظر آتی ہے :جیسے سويت يونين کی مساحت تقریباً 22.4ملیون مربع کلومیٹر  ہے ,ولایت متحدہ امریکہ کا رقبہ 9.3ملیون مربع کیلو میٹر ہے, اور کنڈا کا رقبہ تقریباً 9.9ملیون مربع کیلو میٹر ہے اسی طرح آسٹریلیا  کی مساحت تقریباً 7.6ملین مربع کیلو میٹر ہے بلکہ عالم اسلام کا رقبہ افریقہ کے رقبے سے بھی بڑا ہے کیوں کہ افریقہ کا کل رقبہ تقریباً 30.2ملین مربع کیلو میٹر  ہے۔
اگر عالم اسلام کی پیمائش  نقشے پہ کریں تو شرق سے غرب تک لمبائی تقریباً 19000کیلو میتر ہے اور اس کا عرض تقریباً  6200کیلو میٹر ہے اگر ہم اسے شیپ دیں تو Rectangular  نظر آئے گا۔

عالم اسلام کے نقائص و عیوب:
یہ تو عالم اسلام کی طبعی اور فطری خصوصیات تھیں، صرف طبعی طور پہ وسائل سے زرخیز ہونا کافی نہیں بلکہ صحیح وقت پہ صحیح جگہ ان وسائل کا استعمال کرنا اور مستقبل کے لیے لائحہ عمل تیار کرنا بھی بہت ضروری ہے ۔آج تاریخ میں ہمارا نام اس لیے درج ہے کیوں کہ ہمارے آباؤاجداد کے محنتوں کی چھاپ اور نشانیاں تاریخ کے اوراق میں مرقوم ہیں، ذرا فطرت سے ہٹھکر عالم اسلام کی حضارت(ہر وہ چیز جس کی تخلیق فطری نہیں) پہ غور کرینگے تو پورا عالم اسلام بس پدرم سلطان بود کی دہائی دیتا نظر آئیگا ،حال میں مستقبل کے لیے یا امت کے لیے،  خود ان کی محنتیں اور کاوشیں نظر نہیں آتیں ،وہ کہتے ہیں ہم دوسروں کی بنی بنائی چیزوں کو استعمال کرنے والے شیوخ ہیں ،ہمیں علم وسائنس میں محنت کرنے کی ضرورت کیا ؟؟ہم عالم مستہلک ہی صحیح ہیں۔
آج عالم اسلام میں جہالت بڑھتی چلی جارہی ہے خاص کر عالم عرب میں، صرف کچھ ممالک ایسے ہیں جو جہالت کے نرغے سے آزاد ہیں ،اس کے باوجود عالم اسلام کے کان کھڑے نہیں ہوتے ،عالم اسلام سے کوئی پوچھے کہ جہالت کے نرغے سے اپنی امت کو نکالنے کے لیے اس نے کیا مجوزے اپنائے؟؟؟وہ بڑی عمارتیں تو بناتے ہیں ،امیر ممالک اپنے نام بڑے بڑے ریکارڈ عمارتوں میں ،سیاحی مقامات پہ بنارہے ہیں مگر ابھی تک کوئی آکسفورڈ یا کیمبرج کے مقابل یونیورسٹی قائم نہیں کر پائے ،حالانکہ جتنا پیسہ دبئی نے برج خلیفہ ،سون استار ہوتلز بنانے میں لگایا ،اور سعودی نے جتنا پیسہ اپنے وہابی ازم کو پھیلانے میں لگایا کاش اسکا کچھ حصہ امت کی ترقی میں لگاتا تو آج امت کی یہ حالت نا ہوتی ۔
آج عالم اسلام میں  اتنے بڑے پیمانے پہ زراعت ہونے کے با وجود اس کے بعض ممالک میں بھوک مری اور بے روزگاری بڑھتی چلی جارہی ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ بات وسائل کی نہیں بلکہ اس کے استغلال اورممالک کے  سیاسی حدود کی ہے، آج عالم اسلام کے مابین امت کا تصور نہیں بلکہ قومیت اور ملکیت کا تصور قائم ہو گیا ہے ،جس کا نتیجہ یہ ہے،کہ آج اسلامی ممالک کے مابین جتنی سیاسی لڑائیاں ہیں شاید ہی دوسرے ممالک کے درمیان ہو ، 1940 سے 2000 کے درمیان کل 127 جنگیں ہوچکی ہیں ،جس میں 37 ممالک شامل تھے ابھی حال میں اگر اسلامی ممالک کی حالت دیکھ لیں تواپ  وحدت کے تصور سے بھی کانپ جائیں،اور ان میں اکثر جنگیں اور اختلافات فقط سیاسی حدود کی ہیں ،ہم اسرائیل سے مسجد اقصی کو چھڑانے کے بات کرتے ہیں، وہ امت کیا کر سکتی ہے جو خود اپنے آپسی حق تقسیم نہیں کر پاتی ہے ۔ 
عالم اسلام کا وہ حصہ جو تہذیب وثقافت کی حضانت اور مصدر ہے جو ادیان سماویہ کی جائے پیدائش ہے آج وہ علم و تہذیب میں دوسروں کے آگے گھٹنے ٹیک رہی ہے ،ہم۔اپنی تہذیب کی حفاظت نہیں کر پارہے ہیں ،آج لڑائی صرف مغرب و مشرق کے مابین ہی نہیں بلکہ خود مشرق میں جمود اور فکر کےدرمیان بھی ہے ،اج ارہابیت کا داغ عالم اسلام پہ ہی کیوں لگا ہوا ہے ؟؟کب تک ہم غیروں کی شکایت کرتے رہیں شکایت کے بجائے ہم خود کو مضبوط کیوں نہیں کرتے ،
آج ہم بدلنا چاہتے ہیں ،مگر مبدا تغیر کو چھوڑے ہوئے ہیں ،ہم انتظار کرتے ہیں کہ دوسرے ہمارے ساتھ اچھا برتاؤ کریں، وہ اپنی عادتیں سدھاریں ،ہم خود اپنے آپ کو بدلنے کی کوشش نہیں کرتے ۔
 یاد رکھیں تاریخ سوتی ہوئی قوم کو نہیں جگاتی بلکہ خود اٹھکر تاریخ لکھنی پڑتی ہے  ۔۔۔۔

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

عید ‏سعید ‏پر ‏دل ‏کی ‏کیفیت

__________________نالۂ دل___________________ کاش کہ دو دل ہوتے سینے میں ایک خوشی میں ہنستا اور دوسرا روتا غم میں!! آنکھ کھلی  تو سوچا نہا کر عید کے لیے نئے جوڑے کا انتخاب کروں، اور اسے زیب تن کرکے عطر میں ملبوس ہوکر عید کی نماز پڑھوں، اور دوستوں کے ساتھ ملکر خوشیاں بٹوروں، عید ہونے کی خوشی اتنی تھی کہ فورا بستر سے اٹھکر حمام تک پہچ گیا اور چند ہی منٹوں میں خوشی کی غسل سے فراغت حاصل کر لی ،پانی کی ٹھنڈک نے شاید  دل و دماغ کو ٹھنڈا کر دیا، جس سے ذہن بیتے لمحوں اور حادثات کو ازسر نو حاشیہ خیال پر لانے کا پروسس شروع کر چکا تھا جو کے چند لمحوں کی  نیند کے سبب ذہن کے پردوں سے اوجھل ہو چکا تھا ، اور آرام دہ نیند نے کچھ گھنٹوں کے لیے جسم و جاں کو آرام بخشا تھا ،پھر کیا جیسے ہی نئےجوڑے کی طرف ہاتھ بڑھایا دماغ نے فورا دل کو ایک زور کا جھٹکا دیا اور آنکھوں کے سامنے مظلوم فلسطینیوں اور غاصب و ظالم اسرائیل کے مابین ہوئے حادثات و واقعات گردش کرنے لگے  ”ان کی عید کیسی ہوگی  جو بچے اپنے والدین کو اپنی آنکھوں کے سامنے اسرائلی ظلم وجبر  کا شکار ہوتے ہوے دیکھ رہے ہیں؟ !! اب وہ کس کے ساتھ  عید پڑھنے چلیں

یہ ‏ضعف ‏کا ‏عالم ‏ہے ‏کہ ‏تقدیر ‏کا ‏لکھا

         میں لکھنے کا عادی نہیں اور ناہی کوئی لکھاری ہوں ،لیکن کبھی کبھی جبرا لکھنا ہوتا ہے ،کلیہ کی طرف سے لکھنے کا کام ملتا ہے ،نا چاہ کر بھی محض نمبرات کے لیے  قرطاس سیاہ کرنا  ہوتا ہے ،اس سال بھی اسائمنٹ لکھنا تھا ،فلسطین کے تازہ ترین حالات پر  ہی ایک چھوٹا سا مضمون قلم بند کرنا تھا جمع کرنے کی تاریخ قریب آگئی تو  قلم اٹھایا سوچا لکھوں ۔۔۔ لیکن کیا لکھوں ؟؟۔۔۔۔فلسطین ۔۔۔۔ کوئی قصہ عشق ہو تو لکھوں ،کسی شہزادی کی داستان ہو تو لکھوں ،تحریر کے لئے چاہیے کوئی سلگتا عنوان، کوئی اختلافی موضوع، یا کوئی سنسنی خیز خبر جیسے سیلیبریٹی کا قتل، سیاسی الٹ پھیر یا کوئی ایکسیڈینٹ ۔ یا پھر تحریر کے لئے حسن و عشق چاہیے۔ ہائی پروفائلڈ محبوبہ کی رنگین زلفوں کا اسیر مجنوں، محبت میں ناکام عاشق کی دیوانگی یا یک طرفہ محبت کا دردناک انجام، غزہ کے ان بھوکے ،بے گھر ،ستائے ہوئے، مظلوموں کے بارے میں کیا لکھوں ،جن پر خود ان کے اپنے منھ نہیں کھولتے ،جن پر اقوام متحدہ ترس نہیں کھاتی ،امن کے نمائندے جن کی نمائندگی نہیں کر رہے ہیں!! کسی کتاب یا مضمون کا خلاصہ کرنا ہوتا تو کرتا ،یہ ستر سالہ مظلومیت کی داستان کا خلاصہ

نہ من تنہا در یں خانہ مستم

اکیسوی صدی کی شروعات ہی کافی تیز رفتاری سے ہوئی۔  اگر اس کو ترقی کی صدی کہوں تو شاید غلط نہ ہو جہاں ہر چیز کافی تیز رفتاری سے ترقی پذیر ہو رہی ہے۔ جتنے زرائع ہر شئے کے لئے اس صدی میں ہیں پچھلی کسی  صدی میں موجود نہ تھے۔  وقت کے ساتھ ساتھ انسان نے  اپنے نا صرف طرز زندگی کو بدلا بلکے برتاو و معاملات کے طریقوں میں بھی کافی تبدیلی کی۔ گاؤں دیکھتے دیکھتے کب کسبہ اور کسبہ شہر میں تبدیل ہو گیا کسی کو احساس نہ ہوا۔ اس نئے دور نے شہر کی پوری تصویر ہی بدل دی۔ ہر ملک میں ہائی وے، سبوے، میٹرو، لگزری گاڑیاں اور موڈرن بس اب عام بات ہے۔ کیوں کہ ہر میدان نے اپنے ترقی کا دائرہ وسیع کر لیا ہے۔         لیکن اس ترقی پسند دور میں ابھی بھی ایک قوم ایسی ہے جو صدیوں سے اب تک وہیں ہے جہاں سے اس کا جنم ہوا تھا۔ اس قوم کے افراد میلے کچیلے پھٹے لباس میں کھالی جھولیاں اور آنکھوں میں ہم سے امیدیں لئے کبھی کسی ہائی وے کے موڑ پر ، کبھی میٹرو کے گیٹ پر تو کبھی بس یا ریلوے اسٹاپ پر مل جاتے ہیں۔ یہ وہ قوم ہے جن کو کوئی جانتا نہیں، جن کے پاس رہنے کو گھر ، کھانے کو روٹی اور پہننے کو لباس نہیں ہوتے۔ جن کا وجود حکو