عالم اسلام کا مفہوم مشہور سوری مؤرخ محمود شاکر صاحب -1932»2014-اپنے ایک مضمون میں رقم طراز ہیں :"عالم اسلام ایک جدید اصطلاح ہے ،جس کے استخدام پہ زیادہ سے زیادہ سو سال کا عرصہ ہی گزرا ہوگا؛یہ اس وقت کی بات ہے جب یورپی فوجیوں کا غلبہ ،مسلم اکثریتی علاقوں سے ختم ہونے لگاتھا،تب مغربی صلیبیوں نے اپنی فکری اور علمی قوتیں مسلم معاشرے کی تحقیق و جستجو میں لگادیں؛تاکہ مسلمانوں کی طاقت اور کمزوریوں کا پتا لگا سکیں، اور طاقت کے زور پہ قابض ہونے کے بجائے فکری طور پہ امت مسلمہ کو مفلوج اور مغلوب کر سکے،وہ اپنے مطالعہ اور دراسہ کے ذریعے اس نتیجے پہ پہچے ،کہ مسلمانوں کے مابین بھلے ہی کچھ اختلافات ہیں ،مگر یہ ایک مضبوط و مستحکم اور متحداسلامی تصور کے ساتھ جڑے ہوئے بھی ہیں ؛اس لیے انہوں نے ان ریا ستوں کو جہاں مسلمان زیادہ تر آباد تھے عالم اسلام سے تعبیر کرنا شروع کر دیا ۔(العالم الإسلامي اليوم ،دارالصحوة للنشر والتوزيع،القاهره،ط،١-١٩٨٥م-ص،٤) دیگر مؤرخین اور علامہ صاحب کی رائے سے اتفاق کریں ، تو یہ اصطلاح مستشرقین کی ایجاد ہے ،جسے علمائے اسلام نےمستعار لیا ،کیوں کہ ان علاقوں کے لیے اس س
__________________نالۂ دل___________________ کاش کہ دو دل ہوتے سینے میں ایک خوشی میں ہنستا اور دوسرا روتا غم میں!! آنکھ کھلی تو سوچا نہا کر عید کے لیے نئے جوڑے کا انتخاب کروں، اور اسے زیب تن کرکے عطر میں ملبوس ہوکر عید کی نماز پڑھوں، اور دوستوں کے ساتھ ملکر خوشیاں بٹوروں، عید ہونے کی خوشی اتنی تھی کہ فورا بستر سے اٹھکر حمام تک پہچ گیا اور چند ہی منٹوں میں خوشی کی غسل سے فراغت حاصل کر لی ،پانی کی ٹھنڈک نے شاید دل و دماغ کو ٹھنڈا کر دیا، جس سے ذہن بیتے لمحوں اور حادثات کو ازسر نو حاشیہ خیال پر لانے کا پروسس شروع کر چکا تھا جو کے چند لمحوں کی نیند کے سبب ذہن کے پردوں سے اوجھل ہو چکا تھا ، اور آرام دہ نیند نے کچھ گھنٹوں کے لیے جسم و جاں کو آرام بخشا تھا ،پھر کیا جیسے ہی نئےجوڑے کی طرف ہاتھ بڑھایا دماغ نے فورا دل کو ایک زور کا جھٹکا دیا اور آنکھوں کے سامنے مظلوم فلسطینیوں اور غاصب و ظالم اسرائیل کے مابین ہوئے حادثات و واقعات گردش کرنے لگے ”ان کی عید کیسی ہوگی جو بچے اپنے والدین کو اپنی آنکھوں کے سامنے اسرائلی ظلم وجبر کا شکار ہوتے ہوے دیکھ رہے ہیں؟ !! اب وہ کس کے ساتھ عید پڑھنے چلیں