6دسمبر 1992 کو مسلمان جس طرح بےبسی کے شکار تھے ،اور جتنی زیادہ مسلمانوں کی عزت و حرمت پامال ہوئی تھی بالکل اسی طرح آج مسلمان شرم شار اور بے بس نظر آرہے ہیں ،انہیں محسوس ہو رہا ہے کہ اب ہماری عزتیں سرے عام نیلام ہونگی ،اور ہمیں کوئی انصاف دینے والا نہیں ملے گا کیوں کہ جس گھر سے وہ انصاف کی امیدیں وابستہ کئے ہوئے تھے کل اسی گھر نے اسے اوندھے منھ گرایا ہے خود اپنے اعتبار سے شرما گیا ہوں میں کل کے فیصلے سے صرف مسلمانوں کی حق تلفی ہی نہیں بلکہ ،اس کی عزت نفس ،اس کا ضمیر ،اور اس کا وسواس سب کچل دیا گیا ہے ۔ اور یہ فیصلہ عدالت کے لیے بھی ایک سیاہ فیصلہ ہے کیوں کہ یہ بالکل نا انصافی ہے ۔ سی بی آئی کو اپنی آزادی برقرار رکھنے کے لیے اس فیصلے کے خلاف آواز بلند کرنی چاہیے اور ساتھ میں مسلم پرسنل لا بورڈ کو بھی چاہیے کہ وہ اس فیصلے کے خلاف عدالت عالیہ میں عرضی ڈالے کیوں کہ ہمیں آج بھی اپنی عدالتوں سے انصاف کی امید ہے ،یہ اور بات ہے کہ اب ہماری عدالتوں سے مجرمین کو سزا کے بجائے جزا ملنی شروع ہوگئی ہیں ۔ حیرت کی بات کہ جس انہدام کے لیے اتنی ریلیاں نکالی گئیں ،...
سر سید احمد خان نے 1875ء میں ”محمڈن اینگلو اورینٹل کالج“ کی بنیاد ڈالی تھی جسے 1920ء میں یونیورسٹی کا درجہ ملا اور آج اسے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی حیثیت سے عالمی شہرت حاصل ہے- انہوں نے کہا: میں ہندوستانیوں کے اندر ایسی تعلیم چاہتا ہوں کہ اس کے ذریعہ ان کو اپنے حقوق حاصل کرنے کی قدرت ہو جائے، اگر سرکار نے ہمارے کچھ حقوق اب تک نہیں دیے ہیں جن کی ہم کو شکایت ہو تو بھی ہائی ایجوکیشن وہ چیز ہے کہ خواہ مخواہ طوعاً و کرہاً ہم کو دلا دے گی۔ خدا کے فضل سے جامعہ عارفیہ سید سراواں کا معادلہ اس عظیم یونیورسٹی سے چند سال قبل ہوا۔ اس معادلہ نے مدرسہ ھٰذا کے طلبہ کے لئے کئی راستے ہموار کیے ہیں۔ دینی تعلیم کی تکمیل کے بعد جامعہ عارفیہ کے طلبہ اب یونیورسٹیوں کا رخ کر رہے ہیں۔ معادلے کے بعد سے اب تک تقریباً درجن بھر طلبہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے گریجویٹ ہو چکے ہیں اور کئی طلبہ ابھی بھی اس میں زیر تعلیم ہیں۔ مستقبل میں اس یونیورسٹی کی جانب رخ کرنے والے طلبہ کی رہنمائی کے لئے یہ تحریر شائع کی جا رہی ہے۔ لھٰذا اس یونیورسٹی میں موجود کورس، شعبہ اور داخلہ کی ...