نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

حق ‏اختلاف ‏رائے ‏پہ ‏حکومت ‏کا ‏تازہ ‏حملہ


لیڈر وہ ہوتا ہے جس کی تعریف و توصیف اس  کی پرجا کرے ،نا کہ وہ ، جو خود ہی اپنی تعریف کرتا پھرے ۔
اچھا لیڈر یا عادل حکومت کبھی بھی اس کے خلاف اٹھنے والی آوازوں کو دبانے کی کوشش نہیں کرتا، بلکہ اسے سن کر خود کےاندر بدلاؤ لانے کی کوشش کرتا ہے ،حکومت اگر اپنی رعایا کے ساتھ بہتر سلوک ،منصفانہ رویہ رکھتی ہے ،جس سے عوام بالکل خوشحال رہتی ہے تو پھر ایسی حکومت کسی باہری کی آواز یا اس کی تحقیقات سے خوف نہیں کھاتی ،کیوں کہ اسے پتا ہوتا ہے کہ اگر ہمارے خلاف کوئی کچھ بولے تو ہماری عوام ہی ان کے لیے کافی ہوگی ۔پتا نہیں اس بار حکومت امینسٹی (Amenesty)کی آپریشن سے  اتنا خوف کیوں کھا رہی ہے  ،(واضح رہے کہ امینسٹی انٹرنیشنل یونائیٹیڈ کنگ ڈم کی غیر حکومتی آرگنائزیشن ہے جو حقوق انسانیت پہ کام کرتی ہے اور تقریبا ساٹھ سال سے بڑی دل لگی اورانہماک کے ساتھ اپنی ملینوں ورکرز کے ساتھ یہ کام انجام دے رہی ہے)
گزشتہ دو برسوں سے یہ تنظیم انڈیا میں ہوئے نا انصافیوں کے خلاف ، اور حقوق انسانی کی بازیابی کے لیے آپریشن چلا رہی تھی ،مگر اس سال اسے آپریشن روک نا پڑا جس کے ذمہ دار اس نے حکومت کے بڑے عہدے داروں کو بتایا ۔
امینسٹی کے سینیر ڈائرکٹر رجت کھوسلا(Rajat khosla)نے بی بی سی سے بات چیت کے دوران کہا،کہ ہمارے اکاؤنٹ فریج کر دئیے گئے اور ہمیں اپنے ورکرز کو جلد سے ہٹانے ،اور ہماری تحقیقات کو سسپنڈ کردیا گیا ۔
مزید انہوں نے کہا کہ ہم یہاں کافی مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں ،ہمارے اوپر سسٹمک طریقے سے حکومت کے عہدہ داران  دباؤ بنارہے ہیں  ،جس کی وجہ یہ ہے کہ ہم مسلسل نا انصافیوں کے خلاف آواز بلند کر رہے ہیں ،ہم بلا جھجک حکومت سے جموں کشمیر کے مسئلہ اور دہلی میں ہوئے فسادات  کے بابت سوال کرتے ہیں ،اور ہمیں ہمارے سوالوں کا جواب نہیں ملتا ۔
نا انصافیوں کے خلاف آواز بلند کرنے والی تحریک  پہ حکومت کا یہ تازہ حملہ  اختلاف رائے کو منجمد کرنے کے مماثل ہے،جس سے عہدہ داروں  کو گریز کرنا چاہیے ،کیوں کہ آئین کے مطابق پرایک کو اپنی رائے دینے کا حق ہے خواہ وہ خارجی ہو یا داخلی ۔
گزشتہ آٹھ برسوں میں تقریبا ایک لاکھ سے زائد لوگوں نے اس تنظیم کو اپنا مالی فنڈ دیا تاکہ انڈیا میں ہوئے نا انصافیوں کے خلاف یہ آواز بلند کرے،اس لیے اس تنظیم کو کریک ڈاؤن کرنے  کے بجائے موقع فراہم کرنا چاہیے ،تاکہ کچھ پنہان سچ سامنے آئے ۔ 
ویسے بھی ، گزشتہ کئی سالوں سے حکومت کا جو برتاؤ عوام کے ساتھ ہے اس سے ہندوستانی عوام خوب واقف ہے اسے اپنی پریشانیوں کو سمجھنے اور جاننے کے لیےکسی تحقیق یا آپریشن کی ضرورت نہیں ،وہ اپنی حالت سے خوب واقف ہے۔

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

عید ‏سعید ‏پر ‏دل ‏کی ‏کیفیت

__________________نالۂ دل___________________ کاش کہ دو دل ہوتے سینے میں ایک خوشی میں ہنستا اور دوسرا روتا غم میں!! آنکھ کھلی  تو سوچا نہا کر عید کے لیے نئے جوڑے کا انتخاب کروں، اور اسے زیب تن کرکے عطر میں ملبوس ہوکر عید کی نماز پڑھوں، اور دوستوں کے ساتھ ملکر خوشیاں بٹوروں، عید ہونے کی خوشی اتنی تھی کہ فورا بستر سے اٹھکر حمام تک پہچ گیا اور چند ہی منٹوں میں خوشی کی غسل سے فراغت حاصل کر لی ،پانی کی ٹھنڈک نے شاید  دل و دماغ کو ٹھنڈا کر دیا، جس سے ذہن بیتے لمحوں اور حادثات کو ازسر نو حاشیہ خیال پر لانے کا پروسس شروع کر چکا تھا جو کے چند لمحوں کی  نیند کے سبب ذہن کے پردوں سے اوجھل ہو چکا تھا ، اور آرام دہ نیند نے کچھ گھنٹوں کے لیے جسم و جاں کو آرام بخشا تھا ،پھر کیا جیسے ہی نئےجوڑے کی طرف ہاتھ بڑھایا دماغ نے فورا دل کو ایک زور کا جھٹکا دیا اور آنکھوں کے سامنے مظلوم فلسطینیوں اور غاصب و ظالم اسرائیل کے مابین ہوئے حادثات و واقعات گردش کرنے لگے  ”ان کی عید کیسی ہوگی  جو بچے اپنے والدین کو اپنی آنکھوں کے سامنے اسرائلی ظلم وجبر  کا شکار ہوتے ہوے دیکھ رہے ہیں؟ !! اب وہ کس کے ساتھ  عید پڑھنے چلیں

یہ ‏ضعف ‏کا ‏عالم ‏ہے ‏کہ ‏تقدیر ‏کا ‏لکھا

         میں لکھنے کا عادی نہیں اور ناہی کوئی لکھاری ہوں ،لیکن کبھی کبھی جبرا لکھنا ہوتا ہے ،کلیہ کی طرف سے لکھنے کا کام ملتا ہے ،نا چاہ کر بھی محض نمبرات کے لیے  قرطاس سیاہ کرنا  ہوتا ہے ،اس سال بھی اسائمنٹ لکھنا تھا ،فلسطین کے تازہ ترین حالات پر  ہی ایک چھوٹا سا مضمون قلم بند کرنا تھا جمع کرنے کی تاریخ قریب آگئی تو  قلم اٹھایا سوچا لکھوں ۔۔۔ لیکن کیا لکھوں ؟؟۔۔۔۔فلسطین ۔۔۔۔ کوئی قصہ عشق ہو تو لکھوں ،کسی شہزادی کی داستان ہو تو لکھوں ،تحریر کے لئے چاہیے کوئی سلگتا عنوان، کوئی اختلافی موضوع، یا کوئی سنسنی خیز خبر جیسے سیلیبریٹی کا قتل، سیاسی الٹ پھیر یا کوئی ایکسیڈینٹ ۔ یا پھر تحریر کے لئے حسن و عشق چاہیے۔ ہائی پروفائلڈ محبوبہ کی رنگین زلفوں کا اسیر مجنوں، محبت میں ناکام عاشق کی دیوانگی یا یک طرفہ محبت کا دردناک انجام، غزہ کے ان بھوکے ،بے گھر ،ستائے ہوئے، مظلوموں کے بارے میں کیا لکھوں ،جن پر خود ان کے اپنے منھ نہیں کھولتے ،جن پر اقوام متحدہ ترس نہیں کھاتی ،امن کے نمائندے جن کی نمائندگی نہیں کر رہے ہیں!! کسی کتاب یا مضمون کا خلاصہ کرنا ہوتا تو کرتا ،یہ ستر سالہ مظلومیت کی داستان کا خلاصہ

نہ من تنہا در یں خانہ مستم

اکیسوی صدی کی شروعات ہی کافی تیز رفتاری سے ہوئی۔  اگر اس کو ترقی کی صدی کہوں تو شاید غلط نہ ہو جہاں ہر چیز کافی تیز رفتاری سے ترقی پذیر ہو رہی ہے۔ جتنے زرائع ہر شئے کے لئے اس صدی میں ہیں پچھلی کسی  صدی میں موجود نہ تھے۔  وقت کے ساتھ ساتھ انسان نے  اپنے نا صرف طرز زندگی کو بدلا بلکے برتاو و معاملات کے طریقوں میں بھی کافی تبدیلی کی۔ گاؤں دیکھتے دیکھتے کب کسبہ اور کسبہ شہر میں تبدیل ہو گیا کسی کو احساس نہ ہوا۔ اس نئے دور نے شہر کی پوری تصویر ہی بدل دی۔ ہر ملک میں ہائی وے، سبوے، میٹرو، لگزری گاڑیاں اور موڈرن بس اب عام بات ہے۔ کیوں کہ ہر میدان نے اپنے ترقی کا دائرہ وسیع کر لیا ہے۔         لیکن اس ترقی پسند دور میں ابھی بھی ایک قوم ایسی ہے جو صدیوں سے اب تک وہیں ہے جہاں سے اس کا جنم ہوا تھا۔ اس قوم کے افراد میلے کچیلے پھٹے لباس میں کھالی جھولیاں اور آنکھوں میں ہم سے امیدیں لئے کبھی کسی ہائی وے کے موڑ پر ، کبھی میٹرو کے گیٹ پر تو کبھی بس یا ریلوے اسٹاپ پر مل جاتے ہیں۔ یہ وہ قوم ہے جن کو کوئی جانتا نہیں، جن کے پاس رہنے کو گھر ، کھانے کو روٹی اور پہننے کو لباس نہیں ہوتے۔ جن کا وجود حکو