نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

اشاعتیں

فروری, 2020 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

معرض القاهره الدولي للكتاب

بات Middle East کے سب سے بڑے "کتاب میلے" کی قاہرہ کا عالمی کتاب میلہ   Middle East میں سب سے بڑا اور پورے عالم میں "فرانکفورت"کے بعد دوسرابڑاکتاب میلہ مانا جاتاہے ،جس کی شروعات تقریبا1969میں نائب رئیس مصر"ثروت عکاشہ "کی ایماء پہ ہوئی اس وقت آپ وزیر ثقافت تھے ،(جب پڑھے لکھے لوگ عہدےپہ فائز ہوتے ہیں تو کار آمد چیزیں ایجاد ہوتی ہیں ورنہ جہلا تو صرف مجسمے نصب کروانے پہ ہی فخر کرتے ہیں ) . 1971 میں جب الهيئه المصريه العامه للكتاب،کی بنیاد پڑی تو اس کتاب میلہ کی ذمہ داریاں بھی اسی کمیٹی کے سپرد کردی گئیں،جب سے یہی کمیٹی ہر سال اس کا اہتمام کر رہی ہے ،2017تک یہ میلہ مدینہ نصر (مصر)میں لگا کرتا تھا پھر جب "الهيئة الهندسية للقوات المسلحه،"گروپ نے التجمع الخامس میں 74ایکڑ پہ پھیلے ہوئےمساحت پہ ایک EIEC کے نام سے Exhibition Centre قائم کیا تب سے یہ میلہ ہر سال نصف سال کے تعلیمی اختتام پہ تقریبا بارہ روز کے لیے یہیں لگتا ہے،جس میں ملک ،بیرون ملک سے زائرین اور کتابوں کے شوقین تشریف لاتے ہیں گزشتہ سال کی رپورٹ مانیں تو تقریبا دو ملین لو

اسکندریہ :ذاتی تعارف و تجزیہ

اسکندریہ (Alexandria) مصر کا دوسرا سب سے بڑا شہراور اس کی سب سے بڑی بندر گاہ ہےجسے اتر سے بحر ابیض نے ,دکھن سے نہر  مریوط نے ،پورب سے خلیج ابو قیر ،اور پچھم سے سید کریر نے گھیر رکھا ہے یہ شہر  سوئز کے راستے قدرتی گیس اور تیل کی پائپ لائنوں کے باعث اہم صنعتی مرکز ہے،اپنےروشن مینار (لائٹ ہاؤس) کے باعث یہ بہت ہی مشہورتھا جو 7 عجائبات عالم میں شامل ہے،(جہاں آج قلعہ بنا ہوا ہے) ،اس کے علاوہ زمانہ قدیم میں اسکندریہ کا کتب خانہ بھی کافی شہرت کا حامل تھا، اس شہر کو 334 قبل مسیح (متنازع تاریخ) میں سکندر اعظم نے بسایا تھا اور اسی کے نام پر آج تک "اسکندریہ" کہلاتا ہے،642ء میں جنگ کے دوران لائبریری اور دیگر مشہور عمارات تباہ ہوگئیں۔ روشن مینار 14 ویں صدی میں زلزلے سے تباہ ہوا اور 1700ء تک یہ شہر ایک چھوٹے سے قصبے کی صورت اختیار کرگیا۔  1810ء میں مصر کے عثمانی گورنر محمد علی پاشا نے شہر کو دوبارہ تعمیر کرنے کا آغاز کیا اور 1850ء تک اسکندریہ ماضی کی عظمتیں حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ اس لیے  مصر آنے کے بعد میرے شیڈیول میں اسکندریہ بھی شامل ہوگیا تھا ،تمنا تھی کہ کسی طرح اس

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

عید ‏سعید ‏پر ‏دل ‏کی ‏کیفیت

__________________نالۂ دل___________________ کاش کہ دو دل ہوتے سینے میں ایک خوشی میں ہنستا اور دوسرا روتا غم میں!! آنکھ کھلی  تو سوچا نہا کر عید کے لیے نئے جوڑے کا انتخاب کروں، اور اسے زیب تن کرکے عطر میں ملبوس ہوکر عید کی نماز پڑھوں، اور دوستوں کے ساتھ ملکر خوشیاں بٹوروں، عید ہونے کی خوشی اتنی تھی کہ فورا بستر سے اٹھکر حمام تک پہچ گیا اور چند ہی منٹوں میں خوشی کی غسل سے فراغت حاصل کر لی ،پانی کی ٹھنڈک نے شاید  دل و دماغ کو ٹھنڈا کر دیا، جس سے ذہن بیتے لمحوں اور حادثات کو ازسر نو حاشیہ خیال پر لانے کا پروسس شروع کر چکا تھا جو کے چند لمحوں کی  نیند کے سبب ذہن کے پردوں سے اوجھل ہو چکا تھا ، اور آرام دہ نیند نے کچھ گھنٹوں کے لیے جسم و جاں کو آرام بخشا تھا ،پھر کیا جیسے ہی نئےجوڑے کی طرف ہاتھ بڑھایا دماغ نے فورا دل کو ایک زور کا جھٹکا دیا اور آنکھوں کے سامنے مظلوم فلسطینیوں اور غاصب و ظالم اسرائیل کے مابین ہوئے حادثات و واقعات گردش کرنے لگے  ”ان کی عید کیسی ہوگی  جو بچے اپنے والدین کو اپنی آنکھوں کے سامنے اسرائلی ظلم وجبر  کا شکار ہوتے ہوے دیکھ رہے ہیں؟ !! اب وہ کس کے ساتھ  عید پڑھنے چلیں

یہ ‏ضعف ‏کا ‏عالم ‏ہے ‏کہ ‏تقدیر ‏کا ‏لکھا

         میں لکھنے کا عادی نہیں اور ناہی کوئی لکھاری ہوں ،لیکن کبھی کبھی جبرا لکھنا ہوتا ہے ،کلیہ کی طرف سے لکھنے کا کام ملتا ہے ،نا چاہ کر بھی محض نمبرات کے لیے  قرطاس سیاہ کرنا  ہوتا ہے ،اس سال بھی اسائمنٹ لکھنا تھا ،فلسطین کے تازہ ترین حالات پر  ہی ایک چھوٹا سا مضمون قلم بند کرنا تھا جمع کرنے کی تاریخ قریب آگئی تو  قلم اٹھایا سوچا لکھوں ۔۔۔ لیکن کیا لکھوں ؟؟۔۔۔۔فلسطین ۔۔۔۔ کوئی قصہ عشق ہو تو لکھوں ،کسی شہزادی کی داستان ہو تو لکھوں ،تحریر کے لئے چاہیے کوئی سلگتا عنوان، کوئی اختلافی موضوع، یا کوئی سنسنی خیز خبر جیسے سیلیبریٹی کا قتل، سیاسی الٹ پھیر یا کوئی ایکسیڈینٹ ۔ یا پھر تحریر کے لئے حسن و عشق چاہیے۔ ہائی پروفائلڈ محبوبہ کی رنگین زلفوں کا اسیر مجنوں، محبت میں ناکام عاشق کی دیوانگی یا یک طرفہ محبت کا دردناک انجام، غزہ کے ان بھوکے ،بے گھر ،ستائے ہوئے، مظلوموں کے بارے میں کیا لکھوں ،جن پر خود ان کے اپنے منھ نہیں کھولتے ،جن پر اقوام متحدہ ترس نہیں کھاتی ،امن کے نمائندے جن کی نمائندگی نہیں کر رہے ہیں!! کسی کتاب یا مضمون کا خلاصہ کرنا ہوتا تو کرتا ،یہ ستر سالہ مظلومیت کی داستان کا خلاصہ

نہ من تنہا در یں خانہ مستم

اکیسوی صدی کی شروعات ہی کافی تیز رفتاری سے ہوئی۔  اگر اس کو ترقی کی صدی کہوں تو شاید غلط نہ ہو جہاں ہر چیز کافی تیز رفتاری سے ترقی پذیر ہو رہی ہے۔ جتنے زرائع ہر شئے کے لئے اس صدی میں ہیں پچھلی کسی  صدی میں موجود نہ تھے۔  وقت کے ساتھ ساتھ انسان نے  اپنے نا صرف طرز زندگی کو بدلا بلکے برتاو و معاملات کے طریقوں میں بھی کافی تبدیلی کی۔ گاؤں دیکھتے دیکھتے کب کسبہ اور کسبہ شہر میں تبدیل ہو گیا کسی کو احساس نہ ہوا۔ اس نئے دور نے شہر کی پوری تصویر ہی بدل دی۔ ہر ملک میں ہائی وے، سبوے، میٹرو، لگزری گاڑیاں اور موڈرن بس اب عام بات ہے۔ کیوں کہ ہر میدان نے اپنے ترقی کا دائرہ وسیع کر لیا ہے۔         لیکن اس ترقی پسند دور میں ابھی بھی ایک قوم ایسی ہے جو صدیوں سے اب تک وہیں ہے جہاں سے اس کا جنم ہوا تھا۔ اس قوم کے افراد میلے کچیلے پھٹے لباس میں کھالی جھولیاں اور آنکھوں میں ہم سے امیدیں لئے کبھی کسی ہائی وے کے موڑ پر ، کبھی میٹرو کے گیٹ پر تو کبھی بس یا ریلوے اسٹاپ پر مل جاتے ہیں۔ یہ وہ قوم ہے جن کو کوئی جانتا نہیں، جن کے پاس رہنے کو گھر ، کھانے کو روٹی اور پہننے کو لباس نہیں ہوتے۔ جن کا وجود حکو