قاہرہ
کا عالمی کتاب میلہ Middle Eastمیں سب سے بڑا
اور پورے عالم میں "فرانکفورت"کے بعد دوسرابڑاکتاب میلہ مانا جاتاہے ،جس
کی شروعات تقریبا1969میں نائب رئیس مصر"ثروت عکاشہ "کی ایماء پہ ہوئی اس
وقت آپ وزیر ثقافت تھے ،(جب پڑھے لکھے لوگ عہدےپہ فائز ہوتے ہیں تو کار آمد چیزیں
ایجاد ہوتی ہیں ورنہ جہلا تو صرف مجسمے نصب کروانے پہ ہی فخر کرتے ہیں ).
1971میں جب الهيئه
المصريه العامه للكتاب،کی بنیاد پڑی تو اس کتاب میلہ کی ذمہ داریاں بھی اسی کمیٹی
کے سپرد کردی گئیں،جب سے یہی کمیٹی ہر سال اس کا اہتمام کر رہی ہے ،2017تک یہ میلہ
مدینہ نصر (مصر)میں لگا کرتا تھا پھر جب "الهيئة الهندسية للقوات
المسلحه،"گروپ نے التجمع الخامس میں 74ایکڑ پہ پھیلے ہوئےمساحت پہ ایک
EIECکے نام سے Exhibition Centre قائم کیا تب سے
یہ میلہ ہر سال نصف سال کے تعلیمی اختتام پہ تقریبا بارہ روز کے لیے یہیں لگتا
ہے،جس میں ملک ،بیرون ملک سے زائرین اور کتابوں کے شوقین تشریف لاتے ہیں گزشتہ سال
کی رپورٹ مانیں تو تقریبا دو ملین لوگوں کی ہرسال آمدو رفت ہوتی ہے ،اس سال بھی
مذکورہ مقام پہ 22جنوری سے یہ میلہ لگ چکا ہے
مجھے بھی اس
معرض(کتاب میلہ ) کا شدت سے انتظار تھا اسکندریہ سے واپسی کےبعد مولانا شاہد صاحب
کے ساتھ آج اس میلے کی رونقوں کو دیکھنے اور محسوس کرنے کا موقع ملا، کتاب
میلہ اپنے خیالات کی وسعتوں سے کافی وسیع پایا اس کتاب میلہ کا اندازہ آپ اس سینٹر
کی مساحت سے لگا سکتے ہیں ،سینٹر کے اندر پانچ بڑے بڑے ہال ہیں جس میں ایک ہال کی
پیمائش تقریبا دس ہزار مربع میٹر ہے ،اور ہر ہال بلاک A,B,Cمیں
بٹا ہوا ہے. ہال نمبر 1کے بلاک Aمیں
تقریبا70,Bمیں تقریبا62،اور Cمیں499ناشروں
نے اپنے اپنے کتب خانے مع حصص کے لگائے ہوئے ہیں،اسی طرح ہال نمبر 2کے بلاکAمیں
تقریبا54،بلاک Bمیں 50اور Cمیں 63,ہال نمبر 3کے بلاک
A,میں 76,Bمیں57،Cمیں72،اور
Dمیں بھی 72،ہال نمبر 4کے اے 36،بی82اور سی میں 57،پانچواں ہال لوگوں
کی تفریح کے لیے رکھا ہے جس میں بچوں کے لکھنے پڑھنے کی چیزیں ،اور ساتھ میں
ثقافتی ڈراموں کا انتظام ہے، اپ کو یہاں ہر طرح کی کتابیں اور ایک ہی کتاب کے
متوافر نسخے بآسانی مل جائینگے،اور ساتھ میں ہو سکتا ہے کچھ دیگر ایام سے
سستے میں بھی مل جایئں،کیوں کہ ہر مکتبے والوں نے اپنی کتابوں پہ ایک مخصوص مقدار
میں تخفیفی بورڈ لگا رکھا ہےیہ اور بات ہے کہ مجھے قیمتوں میں دیگر ایام کے مقابل
میں تخفیف نظر نہیں ائی، میرے گزشتہ امتحان کے پرچے میں ایک سوال تھا کہ ورقی
صحافت کے مستقبل پہ اپنے خیالات رقم کریں ؟میں نے اپنے محدود تجربے کی بنا پہ لکھ
ڈالا کہ قریب ہے ورقی صحاقت برائے نام رہ جائے اور اس کی جگہ الکٹرانک صحافت لےلے
،لیکن آج کتاب میلہ کی کتابوں اور ساتھ میں خریدنے والوں کی تعداد دیکھ کر اندازہ
ہوا کہ نہیں پرنٹ کتابوں کی اہمیت ابھی ختم نہیں ہوئی لوگوں نے موبائل یا لیپ ٹاپ
،ٹئبلیٹ ،پہ لکھنا پڑھنا ضرور شروع کر دیا ہے ،لیکن کتابوں کو اپنے سے دور نہیں
کیا بلکہ جدید آلات کے آجانے سے کتابوں کی تعداد میں اور اضافہ ہو گیا ہے ،اج کے
میلے سے اندازہ ہوا کہ اب کتابیں مردوں سے زیادہ عورتیں خرید رہی ہیں ۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں