کچھ لوگ فرقہ پرستی اور گروہ بندی سے نفرت کرتے ہیں لیکن اس کے خاتمے کے لئے ضروری اِقدامات نہیں کرنا چاہتے اور وہ خود ایسے افعال میں گھرے ہوتے ہیں جن سے فرقہ پرستی کو تقویت ملتی رہتی ہے مثلا ان سے اگر کسی مسئلے پہ بات کیجے تو فورا کہ اٹھیں گے آپ کس فرقے سے تعلق رکھتے ہیں ؟ان سے جب سوال کیجیے کہ یہ آپ نے کیوں پوچھا تو کہیں گے کہ بد قسمتی سے ہمارے یہاں لوگ فرقوں میں بٹے ہوئے ہیں کہیں ایسا تو نہیں کہ خود ہماری ذہنی ساخت ہی ہر جگہ فرقہ واریت تلاش کرنے میں سر گرداں ہے کیوں کہ جو جیسا ہوتا ہے پوری دنیا کو وہ اپنی ہی نظروں سے دیکھتا ہے اپ اگر فرقہ واریت سے نفرت کرتے ہیں اور اسے ختم کرنا چاہتے ہیں تو پہلے اپنے آپ سے شروع کریں اور ہر کلمہ پڑھنے والے کو مسلمان سمجھ کر معاملات کریں ان سے ان کے فرقے یا مسلک کے بابت ان سے کوئی بات نا کریں جب تک کہ وہ خود اپنے آپ کو کسی فرقے سے منسوب نا کرے کیوں کہ برائی کے تکلم سے سکوت بہتر ہے
__________________نالۂ دل___________________ کاش کہ دو دل ہوتے سینے میں ایک خوشی میں ہنستا اور دوسرا روتا غم میں!! آنکھ کھلی تو سوچا نہا کر عید کے لیے نئے جوڑے کا انتخاب کروں، اور اسے زیب تن کرکے عطر میں ملبوس ہوکر عید کی نماز پڑھوں، اور دوستوں کے ساتھ ملکر خوشیاں بٹوروں، عید ہونے کی خوشی اتنی تھی کہ فورا بستر سے اٹھکر حمام تک پہچ گیا اور چند ہی منٹوں میں خوشی کی غسل سے فراغت حاصل کر لی ،پانی کی ٹھنڈک نے شاید دل و دماغ کو ٹھنڈا کر دیا، جس سے ذہن بیتے لمحوں اور حادثات کو ازسر نو حاشیہ خیال پر لانے کا پروسس شروع کر چکا تھا جو کے چند لمحوں کی نیند کے سبب ذہن کے پردوں سے اوجھل ہو چکا تھا ، اور آرام دہ نیند نے کچھ گھنٹوں کے لیے جسم و جاں کو آرام بخشا تھا ،پھر کیا جیسے ہی نئےجوڑے کی طرف ہاتھ بڑھایا دماغ نے فورا دل کو ایک زور کا جھٹکا دیا اور آنکھوں کے سامنے مظلوم فلسطینیوں اور غاصب و ظالم اسرائیل کے مابین ہوئے حادثات و واقعات گردش کرنے لگے ”ان کی عید کیسی ہوگی جو بچے اپنے والدین کو اپنی آنکھوں کے سامنے اسرائلی ظلم وجبر کا شکار ہوتے ہوے دیکھ رہے ہیں؟ !! اب وہ کس کے ساتھ عید پڑھنے چلیں