کچھ لوگ فرقہ پرستی اور گروہ بندی سے نفرت کرتے ہیں لیکن اس کے خاتمے کے لئے ضروری اِقدامات نہیں کرنا چاہتے اور وہ خود ایسے افعال میں گھرے ہوتے ہیں جن سے فرقہ پرستی کو تقویت ملتی رہتی ہے مثلا ان سے اگر کسی مسئلے پہ بات کیجے تو فورا کہ اٹھیں گے آپ کس فرقے سے تعلق رکھتے ہیں ؟ان سے جب سوال کیجیے کہ یہ آپ نے کیوں پوچھا تو کہیں گے کہ بد قسمتی سے ہمارے یہاں لوگ فرقوں میں بٹے ہوئے ہیں کہیں ایسا تو نہیں کہ خود ہماری ذہنی ساخت ہی ہر جگہ فرقہ واریت تلاش کرنے میں سر گرداں ہے کیوں کہ جو جیسا ہوتا ہے پوری دنیا کو وہ اپنی ہی نظروں سے دیکھتا ہے اپ اگر فرقہ واریت سے نفرت کرتے ہیں اور اسے ختم کرنا چاہتے ہیں تو پہلے اپنے آپ سے شروع کریں اور ہر کلمہ پڑھنے والے کو مسلمان سمجھ کر معاملات کریں ان سے ان کے فرقے یا مسلک کے بابت ان سے کوئی بات نا کریں جب تک کہ وہ خود اپنے آپ کو کسی فرقے سے منسوب نا کرے کیوں کہ برائی کے تکلم سے سکوت بہتر ہے
سر سید احمد خان نے 1875ء میں ”محمڈن اینگلو اورینٹل کالج“ کی بنیاد ڈالی تھی جسے 1920ء میں یونیورسٹی کا درجہ ملا اور آج اسے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی حیثیت سے عالمی شہرت حاصل ہے- انہوں نے کہا: میں ہندوستانیوں کے اندر ایسی تعلیم چاہتا ہوں کہ اس کے ذریعہ ان کو اپنے حقوق حاصل کرنے کی قدرت ہو جائے، اگر سرکار نے ہمارے کچھ حقوق اب تک نہیں دیے ہیں جن کی ہم کو شکایت ہو تو بھی ہائی ایجوکیشن وہ چیز ہے کہ خواہ مخواہ طوعاً و کرہاً ہم کو دلا دے گی۔ خدا کے فضل سے جامعہ عارفیہ سید سراواں کا معادلہ اس عظیم یونیورسٹی سے چند سال قبل ہوا۔ اس معادلہ نے مدرسہ ھٰذا کے طلبہ کے لئے کئی راستے ہموار کیے ہیں۔ دینی تعلیم کی تکمیل کے بعد جامعہ عارفیہ کے طلبہ اب یونیورسٹیوں کا رخ کر رہے ہیں۔ معادلے کے بعد سے اب تک تقریباً درجن بھر طلبہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے گریجویٹ ہو چکے ہیں اور کئی طلبہ ابھی بھی اس میں زیر تعلیم ہیں۔ مستقبل میں اس یونیورسٹی کی جانب رخ کرنے والے طلبہ کی رہنمائی کے لئے یہ تحریر شائع کی جا رہی ہے۔ لھٰذا اس یونیورسٹی میں موجود کورس، شعبہ اور داخلہ کی ...