نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

اشاعتیں

اگست, 2019 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

برائی کے تکلم سے سکوت بہتر

کچھ لوگ فرقہ پرستی اور گروہ بندی سے نفرت کرتے ہیں لیکن اس کے خاتمے کے لئے ضروری اِقدامات نہیں کرنا چاہتے اور وہ خود ایسے افعال میں گھرے ہوتے ہیں جن سے فرقہ پرستی کو تقویت ملتی رہتی ہے مثلا ان سے اگر کسی مسئلے پہ بات کیجے تو فورا کہ اٹھیں گے آپ کس فرقے سے تعلق رکھتے ہیں ؟ان سے جب سوال کیجیے کہ یہ آپ نے کیوں پوچھا تو کہیں گے کہ بد قسمتی سے ہمارے یہاں لوگ فرقوں میں بٹے ہوئے ہیں  کہیں ایسا تو نہیں کہ خود ہماری ذہنی ساخت ہی ہر جگہ فرقہ واریت تلاش کرنے میں سر گرداں ہے کیوں کہ جو جیسا ہوتا ہے پوری دنیا کو وہ اپنی ہی نظروں سے دیکھتا ہے اپ اگر فرقہ واریت سے نفرت کرتے ہیں اور اسے ختم کرنا چاہتے ہیں تو پہلے اپنے آپ سے شروع کریں اور ہر کلمہ پڑھنے والے کو مسلمان سمجھ کر معاملات کریں ان سے ان کے فرقے یا مسلک کے  بابت ان سے کوئی بات نا کریں جب تک کہ وہ خود اپنے آپ کو کسی فرقے سے منسوب نا کرے کیوں کہ برائی کے تکلم سے سکوت بہتر ہے

تنقید

مغربی تہذیب کو یہ وہم ہوچکا ہے کہ اس نے ہی نقد کرنے کا ذہن دیا ہے حالانکہ جب مغرب جہالت کی تاریکیوں میں ڈوب رہا تھا تب ہی مسلم علما نے جرح و تعدیل کے نام پہ باضابطہ ایک فن مرتب کر دیا تھا محدثین اور فقہا کی تاریخ کھنگالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک شائستہ تنقید کیا ہوتی ہے اور وہ کس طرح انجام پاتی ہے   تنقید کا سہرا اپنے سر باندھنے سے بہتر ہے کہ حقیقت کا اعتراف کیا جائے کیوں کہ یہ شرف مسلمانوں کے حق میں ودیعت کی جا چکی ہے  البتہ مسلمانوں میں جب سے علمی کمزوری ائی  تب سے یہ تنقید کا فن بھی کمزور پڑ گیا اور نوبت یہاں تک آگئی ہے  کہ  آج علمی نقد بھی بے ادبی کا استعارہ ہو چکا ہے آج اپنے سے بڑوں کا اپ علمی تعاقب بھی نہیں کر سکتے اور ان کے آگے دلائل کی بنیاد پہ اپنی رائے بھی نہیں رکھ سکتے جس کا نتیجہ یہ ہے  کہ ہم نا تو ماضی کی خامیوں کو سدھار پاتے ہیں اور ناہی مستقبل کا کوئی لائحہ عمل مرتب کر پاتے ہیں بلکہ آج بھی وہی سوسالہ مسائل پہ الجھے ہوئے ہیں اسلام کبھی بھی اس چیز کی اجازت نہیں دیتا کہ آپ ادب کے نام پہ صداقت کا جنازہ نکال دیں بلکہ صداقت تو ادب کی...

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

جامعہ عارفیہ سے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی

سر سید احمد خان نے 1875ء میں ”محمڈن اینگلو اورینٹل کالج“ کی بنیاد   ڈالی تھی جسے 1920ء میں یونیورسٹی کا درجہ ملا اور آج اسے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی حیثیت سے عالمی شہرت حاصل ہے- انہوں نے کہا: میں ہندوستانیوں کے اندر  ایسی تعلیم چاہتا ہوں کہ اس کے ذریعہ ان کو اپنے حقوق حاصل کرنے کی قدرت ہو جائے، اگر سرکار نے ہمارے کچھ حقوق اب تک نہیں دیے ہیں جن کی ہم کو شکایت ہو تو بھی ہائی ایجوکیشن وہ چیز ہے کہ خواہ مخواہ طوعاً و کرہاً ہم کو دلا دے گی۔ خدا کے فضل سے جامعہ عارفیہ سید سراواں کا معادلہ اس عظیم یونیورسٹی سے چند سال قبل ہوا۔ اس معادلہ نے مدرسہ ھٰذا کے طلبہ کے لئے کئی راستے ہموار کیے ہیں۔ دینی تعلیم کی تکمیل کے بعد جامعہ عارفیہ کے طلبہ اب یونیورسٹیوں کا رخ کر رہے ہیں۔ معادلے کے بعد سے اب تک تقریباً درجن بھر طلبہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی  سے گریجویٹ ہو چکے ہیں اور کئی طلبہ ابھی بھی اس میں زیر تعلیم ہیں۔ مستقبل میں اس یونیورسٹی  کی جانب رخ کرنے والے طلبہ کی رہنمائی کے لئے یہ تحریر شائع کی جا رہی ہے۔ لھٰذا اس یونیورسٹی  میں  موجود کورس، شعبہ اور داخلہ کی ...

نہ من تنہا در یں خانہ مستم

اکیسوی صدی کی شروعات ہی کافی تیز رفتاری سے ہوئی۔  اگر اس کو ترقی کی صدی کہوں تو شاید غلط نہ ہو جہاں ہر چیز کافی تیز رفتاری سے ترقی پذیر ہو رہی ہے۔ جتنے زرائع ہر شئے کے لئے اس صدی میں ہیں پچھلی کسی  صدی میں موجود نہ تھے۔  وقت کے ساتھ ساتھ انسان نے  اپنے نا صرف طرز زندگی کو بدلا بلکے برتاو و معاملات کے طریقوں میں بھی کافی تبدیلی کی۔ گاؤں دیکھتے دیکھتے کب کسبہ اور کسبہ شہر میں تبدیل ہو گیا کسی کو احساس نہ ہوا۔ اس نئے دور نے شہر کی پوری تصویر ہی بدل دی۔ ہر ملک میں ہائی وے، سبوے، میٹرو، لگزری گاڑیاں اور موڈرن بس اب عام بات ہے۔ کیوں کہ ہر میدان نے اپنے ترقی کا دائرہ وسیع کر لیا ہے۔         لیکن اس ترقی پسند دور میں ابھی بھی ایک قوم ایسی ہے جو صدیوں سے اب تک وہیں ہے جہاں سے اس کا جنم ہوا تھا۔ اس قوم کے افراد میلے کچیلے پھٹے لباس میں کھالی جھولیاں اور آنکھوں میں ہم سے امیدیں لئے کبھی کسی ہائی وے کے موڑ پر ، کبھی میٹرو کے گیٹ پر تو کبھی بس یا ریلوے اسٹاپ پر مل جاتے ہیں۔ یہ وہ قوم ہے جن کو کوئی جانتا نہیں، جن کے پاس رہنے کو گھر ، کھا...

یہ ‏ضعف ‏کا ‏عالم ‏ہے ‏کہ ‏تقدیر ‏کا ‏لکھا

         میں لکھنے کا عادی نہیں اور ناہی کوئی لکھاری ہوں ،لیکن کبھی کبھی جبرا لکھنا ہوتا ہے ،کلیہ کی طرف سے لکھنے کا کام ملتا ہے ،نا چاہ کر بھی محض نمبرات کے لیے  قرطاس سیاہ کرنا  ہوتا ہے ،اس سال بھی اسائمنٹ لکھنا تھا ،فلسطین کے تازہ ترین حالات پر  ہی ایک چھوٹا سا مضمون قلم بند کرنا تھا جمع کرنے کی تاریخ قریب آگئی تو  قلم اٹھایا سوچا لکھوں ۔۔۔ لیکن کیا لکھوں ؟؟۔۔۔۔فلسطین ۔۔۔۔ کوئی قصہ عشق ہو تو لکھوں ،کسی شہزادی کی داستان ہو تو لکھوں ،تحریر کے لئے چاہیے کوئی سلگتا عنوان، کوئی اختلافی موضوع، یا کوئی سنسنی خیز خبر جیسے سیلیبریٹی کا قتل، سیاسی الٹ پھیر یا کوئی ایکسیڈینٹ ۔ یا پھر تحریر کے لئے حسن و عشق چاہیے۔ ہائی پروفائلڈ محبوبہ کی رنگین زلفوں کا اسیر مجنوں، محبت میں ناکام عاشق کی دیوانگی یا یک طرفہ محبت کا دردناک انجام، غزہ کے ان بھوکے ،بے گھر ،ستائے ہوئے، مظلوموں کے بارے میں کیا لکھوں ،جن پر خود ان کے اپنے منھ نہیں کھولتے ،جن پر اقوام متحدہ ترس نہیں کھاتی ،امن کے نمائندے جن کی نمائندگی نہیں کر رہے ہیں!! کسی کتاب یا مضمون کا خلاصہ کرنا ہوتا تو ...