مغربی تہذیب کو یہ وہم ہوچکا ہے کہ اس نے ہی نقد کرنے کا ذہن دیا ہے حالانکہ جب مغرب جہالت کی تاریکیوں میں ڈوب رہا تھا تب ہی مسلم علما نے جرح و تعدیل کے نام پہ باضابطہ ایک فن مرتب کر دیا تھا محدثین اور فقہا کی تاریخ کھنگالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک شائستہ تنقید کیا ہوتی ہے اور وہ کس طرح انجام پاتی ہے
تنقید کا سہرا اپنے سر باندھنے سے بہتر ہے کہ حقیقت کا اعتراف کیا جائے کیوں کہ یہ شرف مسلمانوں کے حق میں ودیعت کی جا چکی ہے
البتہ مسلمانوں میں جب سے علمی کمزوری ائی تب سے یہ تنقید کا فن بھی کمزور پڑ گیا اور نوبت یہاں تک آگئی ہے کہ آج علمی نقد بھی بے ادبی کا استعارہ ہو چکا ہے آج اپنے سے بڑوں کا اپ علمی تعاقب بھی نہیں کر سکتے اور ان کے آگے دلائل کی بنیاد پہ اپنی رائے بھی نہیں رکھ سکتے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہم نا تو ماضی کی خامیوں کو سدھار پاتے ہیں اور ناہی مستقبل کا کوئی لائحہ عمل مرتب کر پاتے ہیں بلکہ آج بھی وہی سوسالہ مسائل پہ الجھے ہوئے ہیں اسلام کبھی بھی اس چیز کی اجازت نہیں دیتا کہ آپ ادب کے نام پہ صداقت کا جنازہ نکال دیں بلکہ صداقت تو ادب کی روح ہے جس ادب میں تنقید شامل نا ہو وہ ادب نہیں چاپلوسی ہے کیوں کہ جب خطا سے کوئی خالی نہیں تو تنقید سے کیسے مبرا ہو سکتا ہے
اسی تنقیدی رویہ کے فقدان کا نتیجہ ہے آج ہم مغربی تہذیب کے زنجیروں میں جکڑے چلے جارہے ہیں آج ہم میں مغربی تہذیب کے آنکھوں میں آنکھیں ڈالنے کی ہمت نہیں ہم بغیر کوئی تنقید کیے ہی اسے اپنانا شروع کر دیتے ہیں آج ہمارا ذہن تنقید کی طرف کم مطابقت اور مفاہمت کی طرف زیادہ مائل ہے
آج عالم اسلام میں تنقیدی ذہن رکھنے والے افراد کی بہت شدت سے کمی محسوس کی جارہی ہے جو کہ قدیم روایات اور جدید واقعات کا ناقدانہ معائنہ کرے اس کے بعد اپنی رائے دے
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں