نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

وبائے مسموم اور قراءت بخاری ۔ 2


گزشتہ سے پیوستہ۔۔۔۔
 جیسا کہ معلوم ہے جامعہ عارفیہ کے وہ طلبہ جو ازہر شریف میں ابھی زیر تعلیم ہیں وہ اس مسموم کورونا کے دفاع کے لیے گزشتہ کئی دنوں سے قراءت بخاری جیسے مجرب عمل میں مصروف ہیں جن میں سے بعض حضرات نےمکمل کر لیا ہے اور بعض ابھی بھی مصروف قراءت ہیں جو کہ ان شاءاللہ بہت جلد ہی مکمل کر لیں گے ۔
ختم بخاری کی مجلس :
آج ختم بخاری کی یہ دوسری محفل تھی ،جو مولانا غلام ربانی اور ان کے رفقاء  (انجم راہی ،مولانا رئیس )کی جانب سے ختم بخاری اور ختم ”الادب المفرد “کی مناسبت سے منعقد کی گئی تھی ،جس میں ہمارے تمام احباب بنفس نفیس شریک رہے اور پوری محفل ابتداءا دعا و استغفار کی گونجوں میں گونجتی رہی اور انتہاءا پرزور عشائیہ سے لطف اندوز


کلمات تشکر:
اللہ بھلا کرے مولانا فیض صاحب ،مولانا سبحانی اور مولانا رئیس صاحبان کا کہ آپ لوگوں نے آج اشتہا خیز اور دل پذیر عشائیہ کا انتظام فرمایا ،اور ساتھ ہی تمام احباب کا شکر گزار ہوں کہ آپ تشریف لائے اور ہماری ہمت افزائی فرمایا
راقم شکر گزار ہے  مفتی زین العابدین اشرفی کا کہ آپ نے ایک نیک عمل کی شروعات فرمائی اور آپ کی برکت سے ہم دوستوں میں حرکت آگئی ،اور گروپ وائز بخاری شریف کی قرأت شروع کی گئی جن میں ایک گروپ خود مفتی زین العابدین اشرفی اور ان کے رفقاء مولانا طارق صاحب،اور مولانا فیض صاحب کا تھا اور دوسرے گروپ کی قیادت مولانا غلام ربانی اپنے شریک علم انجم راہی کے ساتھ فرمارہے تھے جبکہ تیسرے گروپ کی قیادت مولانا شاہد رضا صاحب اپنے رفقاء مولانا نیاز صاحب مولانا طالب صاحب اور مولانا حامد صاحب کے ساتھ کر رہے ہیں 

روداد:
ایک دن اچانک ہدایہ پڑھنے کے بعد مولانا غلام ربانی نے راقم سے کہا کہ کچھ دنوں کے لیے ہدایہ روک دی جائے ۔۔یہ بات مجھے اس وقت سمجھ نہیں آئی میں نے بعد میں سوال کیا آخر ہدایہ روکنے کا ارادہ کیوں ہے ؟ 
 تو کہنے لگے ایک دودن موقوف کرکے پوری بخاری شریف پڑھنے کا ارادہ ہے ،میں نے سوچا مکمل بخاری تو مجھے بھی پڑھنے کا ارادہ ہے لیکن پریشانی کی بات ایک دو تین دن کی ہے ،کیوں کہ سات ہزار پانچو سو تریسٹھ حدیثوں کی تلاوت اتنے کم دنوں میں کرنا مولانا کے لیے تو کوئی بھاری کام نہیں تھا( کیوں کہ مولانا علم دوست ہیں اور ضخیم ضخیم کتابوں کا چند دنوں میں مطالعہ کرلینا ان کی طبیعت کا حصہ ہے وہ ہدایہ کے چند صفحات دوستوں کے مابین پڑھنے کے لیے چار چار گھنٹے مطالعہ کرتے ہیں اللہ ان کے ذوق علم کو برقرار رکھے) لیکن راقم کے لیےجوئے شیر لانے کے مترادف تھا لیکن احادیث رسول کی برکت اور بخاری پڑھنے کا شوق تھا جو دل کو راضی کرلیا اور مولانا کے اس کار خیر کا ہم سفر بن گیا ،پھر پڑھتے پڑھتے کہنے لگے یار مفتی صاحب سے پہلے ختم کرنا ہے اس لیے ہمیں زیادہ سے زیادہ پڑھنا چاہیے ،خیر ،کوشش تو ہماری بھر پور تھی کہ مفتی صاحب سے پہلے ختم کردوں لیکن مفتی صاحب سابق الاولین ہی ٹھرے ،ابتدا کی ابتدا اور انتہا کی ابتدا،دونوں میں سبقت لے گیے ، اور ہماری باری ان کے بعد ہی آئی لیکن اس کا ہمیں غم بھی نہیں ہے بلکہ خوشی اس بات کی ہے کہ اس کورونا کی وجہ سے ہم نے پہلی بار پوری بخاری شریف پڑھ ڈالی 
 اس سفر میں مولانا رئیس صاحب اور مولانا شہاب اللہ کا بھی کلیدی کردار رہا ہے کیوں آپ صاحبان نے ہمیں ان ایام میں کھانے کے انتظام و انصرام سے دور رکھا 
 پہلے پہل تو ہم نے سوچا تھا کہ بہت جلدی اور آسانی سے ختم کر لیں گے لیکن آخر آخر تک ہمیں احساس ہو گیا کہ
بہت  کٹھن ہے دگر پنگھٹ کی

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

عید ‏سعید ‏پر ‏دل ‏کی ‏کیفیت

__________________نالۂ دل___________________ کاش کہ دو دل ہوتے سینے میں ایک خوشی میں ہنستا اور دوسرا روتا غم میں!! آنکھ کھلی  تو سوچا نہا کر عید کے لیے نئے جوڑے کا انتخاب کروں، اور اسے زیب تن کرکے عطر میں ملبوس ہوکر عید کی نماز پڑھوں، اور دوستوں کے ساتھ ملکر خوشیاں بٹوروں، عید ہونے کی خوشی اتنی تھی کہ فورا بستر سے اٹھکر حمام تک پہچ گیا اور چند ہی منٹوں میں خوشی کی غسل سے فراغت حاصل کر لی ،پانی کی ٹھنڈک نے شاید  دل و دماغ کو ٹھنڈا کر دیا، جس سے ذہن بیتے لمحوں اور حادثات کو ازسر نو حاشیہ خیال پر لانے کا پروسس شروع کر چکا تھا جو کے چند لمحوں کی  نیند کے سبب ذہن کے پردوں سے اوجھل ہو چکا تھا ، اور آرام دہ نیند نے کچھ گھنٹوں کے لیے جسم و جاں کو آرام بخشا تھا ،پھر کیا جیسے ہی نئےجوڑے کی طرف ہاتھ بڑھایا دماغ نے فورا دل کو ایک زور کا جھٹکا دیا اور آنکھوں کے سامنے مظلوم فلسطینیوں اور غاصب و ظالم اسرائیل کے مابین ہوئے حادثات و واقعات گردش کرنے لگے  ”ان کی عید کیسی ہوگی  جو بچے اپنے والدین کو اپنی آنکھوں کے سامنے اسرائلی ظلم وجبر  کا شکار ہوتے ہوے دیکھ رہے ہیں؟ !! اب وہ کس کے ساتھ  عید پڑھنے چلیں

یہ ‏ضعف ‏کا ‏عالم ‏ہے ‏کہ ‏تقدیر ‏کا ‏لکھا

         میں لکھنے کا عادی نہیں اور ناہی کوئی لکھاری ہوں ،لیکن کبھی کبھی جبرا لکھنا ہوتا ہے ،کلیہ کی طرف سے لکھنے کا کام ملتا ہے ،نا چاہ کر بھی محض نمبرات کے لیے  قرطاس سیاہ کرنا  ہوتا ہے ،اس سال بھی اسائمنٹ لکھنا تھا ،فلسطین کے تازہ ترین حالات پر  ہی ایک چھوٹا سا مضمون قلم بند کرنا تھا جمع کرنے کی تاریخ قریب آگئی تو  قلم اٹھایا سوچا لکھوں ۔۔۔ لیکن کیا لکھوں ؟؟۔۔۔۔فلسطین ۔۔۔۔ کوئی قصہ عشق ہو تو لکھوں ،کسی شہزادی کی داستان ہو تو لکھوں ،تحریر کے لئے چاہیے کوئی سلگتا عنوان، کوئی اختلافی موضوع، یا کوئی سنسنی خیز خبر جیسے سیلیبریٹی کا قتل، سیاسی الٹ پھیر یا کوئی ایکسیڈینٹ ۔ یا پھر تحریر کے لئے حسن و عشق چاہیے۔ ہائی پروفائلڈ محبوبہ کی رنگین زلفوں کا اسیر مجنوں، محبت میں ناکام عاشق کی دیوانگی یا یک طرفہ محبت کا دردناک انجام، غزہ کے ان بھوکے ،بے گھر ،ستائے ہوئے، مظلوموں کے بارے میں کیا لکھوں ،جن پر خود ان کے اپنے منھ نہیں کھولتے ،جن پر اقوام متحدہ ترس نہیں کھاتی ،امن کے نمائندے جن کی نمائندگی نہیں کر رہے ہیں!! کسی کتاب یا مضمون کا خلاصہ کرنا ہوتا تو کرتا ،یہ ستر سالہ مظلومیت کی داستان کا خلاصہ

نہ من تنہا در یں خانہ مستم

اکیسوی صدی کی شروعات ہی کافی تیز رفتاری سے ہوئی۔  اگر اس کو ترقی کی صدی کہوں تو شاید غلط نہ ہو جہاں ہر چیز کافی تیز رفتاری سے ترقی پذیر ہو رہی ہے۔ جتنے زرائع ہر شئے کے لئے اس صدی میں ہیں پچھلی کسی  صدی میں موجود نہ تھے۔  وقت کے ساتھ ساتھ انسان نے  اپنے نا صرف طرز زندگی کو بدلا بلکے برتاو و معاملات کے طریقوں میں بھی کافی تبدیلی کی۔ گاؤں دیکھتے دیکھتے کب کسبہ اور کسبہ شہر میں تبدیل ہو گیا کسی کو احساس نہ ہوا۔ اس نئے دور نے شہر کی پوری تصویر ہی بدل دی۔ ہر ملک میں ہائی وے، سبوے، میٹرو، لگزری گاڑیاں اور موڈرن بس اب عام بات ہے۔ کیوں کہ ہر میدان نے اپنے ترقی کا دائرہ وسیع کر لیا ہے۔         لیکن اس ترقی پسند دور میں ابھی بھی ایک قوم ایسی ہے جو صدیوں سے اب تک وہیں ہے جہاں سے اس کا جنم ہوا تھا۔ اس قوم کے افراد میلے کچیلے پھٹے لباس میں کھالی جھولیاں اور آنکھوں میں ہم سے امیدیں لئے کبھی کسی ہائی وے کے موڑ پر ، کبھی میٹرو کے گیٹ پر تو کبھی بس یا ریلوے اسٹاپ پر مل جاتے ہیں۔ یہ وہ قوم ہے جن کو کوئی جانتا نہیں، جن کے پاس رہنے کو گھر ، کھانے کو روٹی اور پہننے کو لباس نہیں ہوتے۔ جن کا وجود حکو