کہاں جاتا ہے کہ 1347م میں پہلی بار مصر میں طاعونی وبا آئی اور پھر عصر مملوکی ہی میں لوگ کئی بار وبا اور مختلف امراض میں مبتلا ہوگئے،جب وبا کی پریشانیاں بڑھ گئیں تو مصر میں وبا کے زمانے میں لوگ کثرت سے مسجد ازہر میں دیگر اوراد و وظائف کے ساتھ ساتھ قراءت بخاری بھی کرنے لگے۔
ابن تغری بردی اپنی کتاب ” النجوم الزاهرة في ملوك مصر والقاهرة“میں لکھتے ہیں :في أحداث الوباء العظيم عام 742 هـ أنه لما وصل إلى مصر واستفحل أمره بها، اجتمع الأمراء والعامة لقراءة صحيح البخاري في الجامع الأزهر، واستمرّت قراءة البخاري بالجامع الأزهر وغيره عدّة أيام“
742ھ میں جب وبا مصرمیں بہت زیادہ پھیلنے لگی تو امرا اور عوام مسجد ازہر میں قراءت بخاری کے لیے جمع ہونے لگے اور کئی دنوں تک مسجد ازہر اور دیگر مساجد میں بخاری کی قراءت ہوتی رہی،قراءت بخاری کوئی نیا عمل نہیں ،بلکہ علمائے مصر و شام کا مجرب عمل رہا ہے کہ وہ شدائد وبلا میں بخاری کی قراءت کرتے تھے ،
عبد اللہ بن ابی جمرہ (675)اپنی کتاب ”جمع النهايه في بداية الخير والغايه“کے مقدمہ میں بیان کرتے ہیں
الشيخ أبو محمد بن أبي جمرة يقول: قال لي من لقيتُ من القضاة الذين كانت لهم المعرفةو الرحلة عمّن لقيه من السادة الـمُقَرّ لهم بالفضل: إن (صحيح البخاري) ما قُرئ في شدّة إلا فرجت، ولا رُكب به في مركب غرقت قط، وكان البخاري مجابَ الدعوة وقد دعا لقارئه“
شیخ عبد اللہ فرماتے ہیں جن مشائخ سے میری ملاقات ہوئی انھوں فرمایا کہ بخاری شریف جب بھی کسی مصیبت میں پڑھی گئی ہے، اس سے نجات ضرور ملی ہے اور وہ کشتی کبھی ڈوبی ہی نہیں، جس میں بخاری لےکر کوئی سفر کر رہا ہے۔
امین الفتوی دارالافتاء المصریہ دکتور محمد وسام نے اپنے ایک انٹرویومیں فرمایا کہ شیخ ابو جمرہ کے ساتھ ساتھ کئی ائمہ اس طرح کے اعتقاد رکھتے تھے جیسے تقی الدین سبکی،ابن حافظ،وزین الدین عراقی”
وأضاف أن العديد من الأئمة يعتقد ذلك منذ قديم الأزل كالإمام تقي الدين السبكي و ابن الحافظ و زيد الدين العراقي وأئمة المسلمين عبر القرون من غير نكير لهم، فكان لرواية الحديث عن رسول الله - صلى الله عليه وسلم- فضل كبير عند عامة الناس وعلمائهم.“
اور آپ نے اس طرف بھی اشارہ فرمایا کہ امام بخاری خود مستجاب الدعا تھے۔ حافظ ابن ابی علی غسانی( جو کہ پانچویں صدی کے کبار علمائے حدیث میں سے ہیں )بیان کرتے ہیں کہ جب سمرقند میں شدید قحط سالی آئی تو لوگ امام بخاری کی قبر پہ گئے اور وہاں نماز استسقا خشوع و خضوع کے ساتھ ادا کرنے لگے ،یہاں تک کئی دنوں تک زور داربارش ہوتی رہی ۔
”وأشار إلى أن الإمام البخاري كان مستجاب الدعوة، فيحكي الحافظ ابن ابي علي الغساني- وهو من كبار علماء الحديث في القرن الخامس- أنه عندما أصاب سمرقند قحط شديد ذهب الناس إلى ضريح الإمام البخاري وصلوا عنده صلاة استسقاء متضرعين إلى الله بالدعاء إلى أن نزل الماء منهمر لأيام طوال“
جو عمل ائمہ اعلام سے منصوص اور مجرب ہو اسے بدعت وخرافات کہہ کر اس کے فیوض وبرکات سے محروم رہنا، عقل مندوں کا کام نہیں اور خاص کر وہ کتاب جو احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم پہ مدلل اور متیقن ثبوت ہے اسکی قراءت کو عدم دفع بلا سمجھنا عقل میں آنی والی بات نہیں ،
بلکہ جب بھی مصیبت کی گھڑی آئے ایسے مجرب اعمال کے ذریعے اسے دفع کرنا مستحسن امر ہے
اسلیے اس بار کورونا وائرس سے بچاؤ کے لیے جامعہ عارفیہ کے متعدد طلبہ جو ازہر میں ہیں، اس عمل میں لگے رہے جن میں کچھ فراغت پا چکے اور کچھ ابھی بھی مصروف عمل ہیں
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں