مصر في عيون الوافدين بفضل الله تعالى في فبراير تمت لي الموافقة للدراسة في جامعة الأزهر الشريف،ولا أدري !كم كنت مسروراًوماذا أثارت هذه الموافقة في نفسي من مشاعر، وفي ذهني من خواطر!؛ كانت مصر في خيالنا يومئذ دنيا مسحورة، فيها العجائب وكل ما مرغوب لدى الناس، كنت أسمع عنها كثيرا عبرالمجلات والصحف، الرجال الذين نقرأ لهم، والشعراء الذين نحفظ شعرهم منها،كلما كنت أسمع وأدرس عنها يزداد الحب لها ،ولما قرأت إبن الكندي،والشاعر صلاح الدين الصفدي، حبسني الحب لها ومزقني كل ممزق، قال ابن الكندي المصري : "فضل الله مصر على سائر البلدان، كما فضل بعض الناس على بعض، والأيام والليالي بعضها على بعض، والفضل على ضربين: في دين أو دنيا، أو فيهما جميعاً، وقد فضل الله مصر وشهد لها في كتابه؛ بالكرم وعِظم المنـزلة، وذكرها باسمها، وخصها دون غيرها، وكرر ذكرها، وأبان فضلها في آيات من القرآن العظيم، تنبئ عن مصر وأحوالها، وأحوال الأنبياء بها، والأمم الخالية، والملوك الماضية، والآيات البينات، يشهد لها بذلك القرآن، وكفى به شهيداً، ومع ذلك رُوي عن النبي صلى الله عليه وسلم في مصر وفي عَجَمها خاصة -أي القبط- وذ
__________________نالۂ دل___________________ کاش کہ دو دل ہوتے سینے میں ایک خوشی میں ہنستا اور دوسرا روتا غم میں!! آنکھ کھلی تو سوچا نہا کر عید کے لیے نئے جوڑے کا انتخاب کروں، اور اسے زیب تن کرکے عطر میں ملبوس ہوکر عید کی نماز پڑھوں، اور دوستوں کے ساتھ ملکر خوشیاں بٹوروں، عید ہونے کی خوشی اتنی تھی کہ فورا بستر سے اٹھکر حمام تک پہچ گیا اور چند ہی منٹوں میں خوشی کی غسل سے فراغت حاصل کر لی ،پانی کی ٹھنڈک نے شاید دل و دماغ کو ٹھنڈا کر دیا، جس سے ذہن بیتے لمحوں اور حادثات کو ازسر نو حاشیہ خیال پر لانے کا پروسس شروع کر چکا تھا جو کے چند لمحوں کی نیند کے سبب ذہن کے پردوں سے اوجھل ہو چکا تھا ، اور آرام دہ نیند نے کچھ گھنٹوں کے لیے جسم و جاں کو آرام بخشا تھا ،پھر کیا جیسے ہی نئےجوڑے کی طرف ہاتھ بڑھایا دماغ نے فورا دل کو ایک زور کا جھٹکا دیا اور آنکھوں کے سامنے مظلوم فلسطینیوں اور غاصب و ظالم اسرائیل کے مابین ہوئے حادثات و واقعات گردش کرنے لگے ”ان کی عید کیسی ہوگی جو بچے اپنے والدین کو اپنی آنکھوں کے سامنے اسرائلی ظلم وجبر کا شکار ہوتے ہوے دیکھ رہے ہیں؟ !! اب وہ کس کے ساتھ عید پڑھنے چلیں