نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

جامعہ عارفیہ سے جامعہ ملیہ اسلامیہ

جامعہ ملیہ اسلامیہ کا تعارف
1920ء میں علی گڑھ میں جامعہ ملیہ اسلامیہ کی بنیاد رکھی گئی۔ اس کے بانیین میں مولانا محمود حسن دیوبندی، محمد علی جوہر، حکیم اجمل خان، ڈاکٹر مختار احمد انصاری، عبد المجید خواجہ اور ذاکر حسین ہیں۔ ان حضرات کا خواب ایک ایسے تعلیمی ادارہ کا قیام تھا جہاں اکثریت کے جذبے کا احترام کیا جائے اور اخلاق عالیہ کا مظاہرہ کیا جائے۔ 1925ء میں جامعہ کو علی گڑھ سے کرول باغ، نئی دہلی منتقل کیا گیا۔ 1 مارچ 1935ء کو اوکھلا میں جامعہ کا سنگ بنیاد رکھا گیا۔ اوکھلا اس زمانہ میں جنوبی دہلی  کا ایک غیر رہائشی علاقہ تھا۔  نئے حرم جامعہ میں کتب خانہ، جامعہ پریس اور مکتبہ کے علاوہ تمام شعبے منتقل کردیے گئے تھے۔ اسے ایک قومی یونیورسٹی کے طور پر تسلیم کیا گیا جہاں اعلیٰ، جدید اور ترقی پسند تعلیم کا انتظام کیا جائے اور ملک بھر کے تمام مذاہب کے لوگ بالخصوص مسلمان تعلیم حاصل کرسکیں۔ جامعہ کو گاندھی اور ٹیگور کا بھرپور تعاون حاصل رہا۔ دونوں بزرگوں کا ماننا تھا کہ جامعہ ہزاروں طالبان علوم جدیدہ کی تشنگی مٹانےکا سامان فراہم کرے گی۔ 1988ء میں جامعہ کو بھارتی پارلیمان کے جامعہ ملیہ اسلامیہ ایکٹ، (59/1988) کے تحت مرکزی یونیورسٹی کا درجہ ملا۔

جامعہ عارفیہ سے جامعہ ملیہ کی جانب
اس عظیم مرکزی جامعہ سے جامعہ عارفیہ کا معادلہ 2014 میں واقع ہوا۔ اس معادلہ میں جامعہ ملیہ اسلامیہ نے جامعہ عارفیہ کے عالمیت کی سند کو سینیر سیکنڈری (Senior Secondary)  کے مساوی قبول کیا  اور فیکلٹی آف ہیومینٹیزاینڈ لینگویجیز (Faculty of Humanities)  اور فیکلٹی آف سوشل سائنس (Faculty of Social Science)  کے تمام کورسز میں داخلہ لینے کی اجازت دی۔ خدا کے فضل و کرم سے جامعہ عارفیہ سے فارغ شدہ کئی طلبہ اس وقت جامعہ ملیہ اسلامیہ کے مختلف شعبوں میں  زیر تعلیم ہیں۔

فیکلٹی آف ہیومینٹیزانڈ لینگویز  (Faculty of Humanities & Languages
اس فیکلٹی کے تحت کورسز ذیل میں درج ہیں:
•       بی اے آنرس عربی(B.A. (H) Arabic)
•       بی اے آنرس انگلش(B.A. (H) English)
•       بی اے آنرس ہندی (B.A. (H) Hindi)
•       بی اے آنرس ہسٹری(B.A. (H) History)
•       بی اے آنرس اسلامک اسٹڈیز(B.A. (H) Islamic Studies)
•       بی اے آنرس فارسی(B.A. (H) Persian)
•       بی اے آنرس اردو(B.A. (H) Urdu)
•       بی اے آنرس سنسکرت(B.A. (H) Sanskrit)
ان تمام کورسز میں داخلہ کے لئے سینیر سیکنڈری (Senior Secondary)  ، مساوی بورڈ یا جامعہ عارفیہ کی عالمیت کی مارکشیٹ، جس میں مجموعی طور پر 50% نمبرات رقم ہوں ، مقبول ہے۔  ان میں سے کسی بھی زبان یا فن کی دینی و دنیاوی اعتبار سے اپنی اہمیت ہےلھٰذا پوری آزادی کے ساتھ آپ کسی بھی فن کی خدمت کر کے مقصد اصلی کو حاصل کر سکتے ہیں۔

فیکلٹی آف سوشل سائنس (Faculty of Social Science) 
اس فیکلٹی کے تحت کورسز ذیل میں درج ہیں:
•       بی اے جینرل (B.A General)
•       بی  کام (B.Com)
•       بی اے ایکانومکس آنرس(B.A (H) Economics)
•       بی اے سوشیولوجی آنرس (B.A (H) Sociology)
•       بی اے پولیٹکل سائنس (B.A Political Science)
•       بی اے سائکولوجی (B.A Psychology)
ان تمام کورسز میں داخلہ کے لئے سینیر سیکنڈری (Senior Secondary)  ، مساوی اسٹیٹ بورڈ یا جامعہ عارفیہ کی عالمیت کی مارکشیٹ، جس میں مجموعی طور پر 50% نمبرات رقم ہوں اور مطلوبہ کورس کے مضمون (Subject)  میں 45% نمبرات رقم ہوں،  مقبول ہے۔  ان میں سے کسی بھی زبان یا فن کی دینی و دنیاوی اعتبار سے اپنی اہمیت ہےلھٰذا پوری آزادی کے ساتھ آپ کسی بھی فن کی خدمت کر کے مقصد اصلی کو حاصل کر سکتے ہیں۔

داخلہ کا عمل
تمام کورسز میں داخلہ ٹیسٹ کے ذریعہ داخلہ لیا جاتا ہے۔ طالب علم کو داخلہ ٹیسٹ میں کامیاب ہونا لازم ہے۔  داخلہ ٹیسٹ میں آنے والے مواد ہر کورس کے لئے الگ الگ ہو نگے۔ مواد کی فہرست ویب سائٹ پر مل جائے گی اور کتابوں کے لئے اس کتب خانہ  کا رخ کر سکتے ہیں جہاں ایسے داخلہ ٹیسٹ کی کتابیں ملتی ہوں۔

رہائش
ان کورسز کی فیس مختلف ہیں جن کے لئے جامعہ ملیہ اسلامیہ کے پروسپیکٹس کے جانب رجوع کیا جا سکتا ہے۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ اپنے طلبہ کے قیام و طعام کا بھی خیال ہوٹل و میس (Hostel & Mess)  کے ذریعہ رکھتا ہے۔ ہوسٹل  کے لئے داخلہ کے بعد الگ سے  درخواست اور  انٹرویو دینا ہوتا ہے ، چونکہ اس وقت طلبہ کی تعداد موجودہ ہوسٹل کے انتظام سے زیادہ ہے، اس لیے ہوسٹل ملنے میں دشواری ہوتی ہے؛ اس لیے کافی طلبہ جامعہ کے باہر اپنا انتظام کر کے تعلیم حاصل کرتے ہیں۔

مزید
یہ وہ بنیادی باتیں ہیں جو ہمیں جامعہ عارفیہ سے جامعہ ملیہ اسلامیہ کے جانب رخ کرنے میں معاون ہونگی۔ یقیناً اس سفر میں اور بھی کئی منازل کو طے کرنا ہوگا جن کا ذکر اس میں نہیں ہے۔ لھٰذا کسی بھی قسم کے شبھات و کشمکش کے ازالہ کے لئے آپ ہمارا بلاگ وزٹ کر سکتے ہیں، ہمیں ای میل کر سکتے ہیں یا براہ راست ہمارے موبائل نمبر پر ہم سے رابطہ کر سکتے ہیں۔




مغیث انجم، جامعہ ملیہ اسلامیہ (دہلی)

About Me

تبصرے

ایک تبصرہ شائع کریں

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

عید ‏سعید ‏پر ‏دل ‏کی ‏کیفیت

__________________نالۂ دل___________________ کاش کہ دو دل ہوتے سینے میں ایک خوشی میں ہنستا اور دوسرا روتا غم میں!! آنکھ کھلی  تو سوچا نہا کر عید کے لیے نئے جوڑے کا انتخاب کروں، اور اسے زیب تن کرکے عطر میں ملبوس ہوکر عید کی نماز پڑھوں، اور دوستوں کے ساتھ ملکر خوشیاں بٹوروں، عید ہونے کی خوشی اتنی تھی کہ فورا بستر سے اٹھکر حمام تک پہچ گیا اور چند ہی منٹوں میں خوشی کی غسل سے فراغت حاصل کر لی ،پانی کی ٹھنڈک نے شاید  دل و دماغ کو ٹھنڈا کر دیا، جس سے ذہن بیتے لمحوں اور حادثات کو ازسر نو حاشیہ خیال پر لانے کا پروسس شروع کر چکا تھا جو کے چند لمحوں کی  نیند کے سبب ذہن کے پردوں سے اوجھل ہو چکا تھا ، اور آرام دہ نیند نے کچھ گھنٹوں کے لیے جسم و جاں کو آرام بخشا تھا ،پھر کیا جیسے ہی نئےجوڑے کی طرف ہاتھ بڑھایا دماغ نے فورا دل کو ایک زور کا جھٹکا دیا اور آنکھوں کے سامنے مظلوم فلسطینیوں اور غاصب و ظالم اسرائیل کے مابین ہوئے حادثات و واقعات گردش کرنے لگے  ”ان کی عید کیسی ہوگی  جو بچے اپنے والدین کو اپنی آنکھوں کے سامنے اسرائلی ظلم وجبر  کا شکار ہوتے ہوے دیکھ رہے ہیں؟ !! اب وہ کس کے ساتھ  عید پڑھنے چلیں

یہ ‏ضعف ‏کا ‏عالم ‏ہے ‏کہ ‏تقدیر ‏کا ‏لکھا

         میں لکھنے کا عادی نہیں اور ناہی کوئی لکھاری ہوں ،لیکن کبھی کبھی جبرا لکھنا ہوتا ہے ،کلیہ کی طرف سے لکھنے کا کام ملتا ہے ،نا چاہ کر بھی محض نمبرات کے لیے  قرطاس سیاہ کرنا  ہوتا ہے ،اس سال بھی اسائمنٹ لکھنا تھا ،فلسطین کے تازہ ترین حالات پر  ہی ایک چھوٹا سا مضمون قلم بند کرنا تھا جمع کرنے کی تاریخ قریب آگئی تو  قلم اٹھایا سوچا لکھوں ۔۔۔ لیکن کیا لکھوں ؟؟۔۔۔۔فلسطین ۔۔۔۔ کوئی قصہ عشق ہو تو لکھوں ،کسی شہزادی کی داستان ہو تو لکھوں ،تحریر کے لئے چاہیے کوئی سلگتا عنوان، کوئی اختلافی موضوع، یا کوئی سنسنی خیز خبر جیسے سیلیبریٹی کا قتل، سیاسی الٹ پھیر یا کوئی ایکسیڈینٹ ۔ یا پھر تحریر کے لئے حسن و عشق چاہیے۔ ہائی پروفائلڈ محبوبہ کی رنگین زلفوں کا اسیر مجنوں، محبت میں ناکام عاشق کی دیوانگی یا یک طرفہ محبت کا دردناک انجام، غزہ کے ان بھوکے ،بے گھر ،ستائے ہوئے، مظلوموں کے بارے میں کیا لکھوں ،جن پر خود ان کے اپنے منھ نہیں کھولتے ،جن پر اقوام متحدہ ترس نہیں کھاتی ،امن کے نمائندے جن کی نمائندگی نہیں کر رہے ہیں!! کسی کتاب یا مضمون کا خلاصہ کرنا ہوتا تو کرتا ،یہ ستر سالہ مظلومیت کی داستان کا خلاصہ

نہ من تنہا در یں خانہ مستم

اکیسوی صدی کی شروعات ہی کافی تیز رفتاری سے ہوئی۔  اگر اس کو ترقی کی صدی کہوں تو شاید غلط نہ ہو جہاں ہر چیز کافی تیز رفتاری سے ترقی پذیر ہو رہی ہے۔ جتنے زرائع ہر شئے کے لئے اس صدی میں ہیں پچھلی کسی  صدی میں موجود نہ تھے۔  وقت کے ساتھ ساتھ انسان نے  اپنے نا صرف طرز زندگی کو بدلا بلکے برتاو و معاملات کے طریقوں میں بھی کافی تبدیلی کی۔ گاؤں دیکھتے دیکھتے کب کسبہ اور کسبہ شہر میں تبدیل ہو گیا کسی کو احساس نہ ہوا۔ اس نئے دور نے شہر کی پوری تصویر ہی بدل دی۔ ہر ملک میں ہائی وے، سبوے، میٹرو، لگزری گاڑیاں اور موڈرن بس اب عام بات ہے۔ کیوں کہ ہر میدان نے اپنے ترقی کا دائرہ وسیع کر لیا ہے۔         لیکن اس ترقی پسند دور میں ابھی بھی ایک قوم ایسی ہے جو صدیوں سے اب تک وہیں ہے جہاں سے اس کا جنم ہوا تھا۔ اس قوم کے افراد میلے کچیلے پھٹے لباس میں کھالی جھولیاں اور آنکھوں میں ہم سے امیدیں لئے کبھی کسی ہائی وے کے موڑ پر ، کبھی میٹرو کے گیٹ پر تو کبھی بس یا ریلوے اسٹاپ پر مل جاتے ہیں۔ یہ وہ قوم ہے جن کو کوئی جانتا نہیں، جن کے پاس رہنے کو گھر ، کھانے کو روٹی اور پہننے کو لباس نہیں ہوتے۔ جن کا وجود حکو