نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

جامعہ عارفیہ سے جے این یو ، ڈی یو اور جامعہ ہمدرد یونیورسٹی


یہ مضمون تین یونیورسٹیوں کے  تعارف ، کورس ، اہلیت کے معیار اوران میں  داخلے کے عمل کے موضوعات پر مشتمل ہے۔ جواہر لال نہرو یونیورسٹی ، دہلی یونیورسٹی اور جامعہ ہمدرد۔ اتفاق یہ ہے کہ اب تک ان  یونیورسٹیز کا معادلہ جامعہ عارفیہ سے نہیں ہوا ہے۔ لہذا  اس میں داخلہ کے لئے  سیکنڈری  (10th)اور سینئر سیکنڈری (12 ویں) مارک شیٹ یا ان کے مساوی (مدرسہ بورڈ  جیسے یوپی ، بہار ، مغربی بنگال ، اور جھارکھنڈ مدرسہ بورڈ وغیرہ کی سند) ہونی چاہئے۔


جواہر لال نہرو یونیورسٹی

جواہر لال نہرو یونیورسٹی ہندوستان کی سب سے اہم یونیورسٹی ہے ، اور درس و تحقیق کے لئے ایک عالمی شہرت کا حامل مرکز ہے۔  اس یونیورسٹی  کا قیام 1969 میں پارلیمنٹ کے ایکٹ کے ذریعہ عمل میں آیا ۔ اس کا نام ہندوستان کے پہلے وزیر اعظم جواہر لال نہرو کے نام پر رکھا گیا ۔ جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے قیام کا بل راجیہ سبھا میں یکم ستمبر 1965 کو اس وقت کے وزیر تعلیم ایم سی چَگلا نے رکھا تھا۔ سائنس و  سوشلزم سمیت نئی فیکلٹیاں تشکیل دی گئیں ،  اس یونیورسٹی کا مقصد نیک ارادں کے ساتھ  معاشرے کے کمزور طبقات کے طلباء تک رسائی فراہم کرنا قرار پایا۔ جے این یو بل 16 نومبر 1966 کو لوک سبھا میں منظور ہوا اور 22 اپریل 1969 کو اس کی بنیاد پڑی۔

کورسز
اسکول آف لینگویج لٹریچر اینڈ کلچر اسٹڈیز (School of Language Literature and Culture Studies)

بی اے  (B.A)  
عربی(Arabic) ، چائنیز(Chinese) ، فرینچ(French) ، جرمن(German) ، جیپنیز(Japanese) ، کورین(Korean) ، فارسی(Persian) ، پشتو(Pashto) ، رشین(Russian) ، اسپینش(Spanish) ، پورٹیوز (Portuguese)اور ایٹیلینItalian)   )

اہلیت
ان کورسز میں داخلہ کے لئے سینیر سیکنڈری (12th) یا اس کے مساوی بورڈ کی مارک شیٹ جس میں 50% نمبرات درج ہوں  ضروری ہے۔

داخلہ کا عمل
جے این یو ہر سال آن لائن داخلہ کے امتحان (Entrance Exams)کا انعقاد کرتی ہے۔ داخلے میں کامیاب امیدوار ازدواجی بنیادوں (Marital Base)  پر داخلہ حاصل کرتے ہیں۔

Web Site: http://www.jnu.ac.in

Jawahar Lal Nehru University Prospectus 2019-2020 .PDF




دہلی یونیورسٹی

دہلی یونیورسٹی ، جسے (ڈی یو) کے نام سے جانا جاتا ہے ، ایک کولیجیٹ پبلک سینٹرل یونیورسٹی (collegiate public central university) ہے ، جو نئی دہلی ، ہندوستان میں واقع ہے۔ اس کی بنیاد سن 1922 میں مرکزی قانون ساز اسمبلی (Central Legislative Assembly)کے ایک ایکٹ نے رکھی تھی۔ بحیثیت کالج ، اس کے اہم کام یونیورسٹی کے تعلیمی محکموں اور اس سے منسلک کالجوں کے مابین تقسیم ہیں۔ اس ادارےکی بنیاد تین کالج ، دو اساتذہ اور 750 طلباء پر رکھی گئی تھی  ۔  آج یہ  ہندوستان کا سب سے اعلی تعلیم دینے والا ادارہ  کے ساتھ ساتھ  دنیا کے سب سے بڑے اداروں میں شامل ہوگیا ہے۔ یہ یونیورسٹی اس وقت اپنے پورے شمالی اور جنوبی کیمپس میں تقسیم شدہ 16 فیکلٹیوں اور 86 محکموں پر مشتمل ہے۔ اس میں 77 منسلک کالج اور 5 دیگر انسٹی ٹیوٹ ہیں جن میں 1،32،000 سے زائد ریگولر طلباء اور 2،61،000  مراسلاتی طلباء کے اندراج ہیں۔ ہندوستان کے نائب صدر یونیورسٹی کے چانسلر کی حیثیت سے خدمات انجام دیتے ہیں۔

کورسز
فیکلٹی آف آرٹس  ، بی اے (Faculty of Arts, B.A)
عربی(Arabic) ، انگلش(English) ، ہندی(Hindi) ، لائبریری سائنس(Library Science) ، جدید ہندوستانی زبان(Modern Indian Languages) ، فارسی(Persian) ، فلسفہ(Philosophy) ، نفسیات(Psychology) ، سنسکرت (Sanskrit) اور اردو(Urdu)

 فیکلٹی آف سوشل سائنس، بی اے (Faculty of Social Science, B.A)
جرنلزم(Journalism) ، معاشیات(Economics) ، جغرافیہ(Geography) ، تاریخ(History) ، سیاسیات(Political Science) ، سوشل ورک (Social Work) اورسماجیات(Sociology)

اہلیت کا معیار
ان کورسز میں داخلہ کے لئے سینیر سیکنڈری (12th) یا اس کے مساوی بورڈ کی مارک شیٹ جس میں 50% نمبرات درج ہوں  ضروری ہے۔

داخلہ کا عمل
دہلی یونیورسٹی کے اکثر کورسز میں سینیر سیکنڈری (12th)  میں حاصل شدہ نمبرات کی بنیاد پرداخلہ ہوتے ہیں اور بعض میں داخلہ امتحان کے ذریعہ داخلہ لیا جاتا ہے۔


جامعہ ہمدرد 

جامعہ ہمدرد ایک اعلی تعلیم کا انسٹی ٹیوٹ مانا جاتا ہے  یہ یونیورسٹی ہندوستان کی نئی دہلی میں واقع ہے۔ یہ حکومت کی مالی اعانت سے چلنے والی یونیورسٹی ہے۔ اسے سنہ 1989 میں قائم کیا گیا اور  ہندوستان کے اس وقت کے وزیر اعظم جناب راجیو گاندھی نے یکم اگست 1989 کو اس کا باقاعدہ افتتاح کیا۔ 2019 میں اسے انسٹی ٹیوٹ آف ایمنینس (Institute of Eminence)کا درجہ دیا گیا۔

کورسز
اسکول آف ہومینٹیز انڈ سوشل سائنس(School of Humanities and Social Science)
اسلامیات (Islamic Studies)

(نوٹ: جامعہ ہمدرد میں مزیدکورسز کے معلومات کے لئے ویب سائٹ یا پروسپیکٹس کے جانب رجوع کریں)

اہلیت
ان کورسز میں داخلہ کے لئے سینیر سیکنڈری (12th) یا اس کے مساوی بورڈ کی مارک شیٹ جس میں 45%نمبرات درج ہوں  ضروری ہے۔

داخلہ کا عمل
درخواست دے کر مشاورت سیشن (Counselling Session) میں پیش ہونا ہوگا۔ کامیاب امیدواروں کو داخلہ ملتا ہے۔

نوٹ: یہ تینوں یونیورسٹیاں طلبا کو ہاسٹل کی سہولت اور اسکالرشپ مہیا کرتی ہیں۔ مزید معلومات کے لئے ان یونیورسٹیوں کے تازہ دستور العمل کے طرف رجوع کریں ۔ ہم سے رابطہ بھی کر سکتے ہیں۔

Jamia Hamdard Prospectus 2019-2020 .PDF


Download this article .PDF




محمد فرقان، جامعہ ملیہ اسلامیہ (دہلی)
About Me

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

عید ‏سعید ‏پر ‏دل ‏کی ‏کیفیت

__________________نالۂ دل___________________ کاش کہ دو دل ہوتے سینے میں ایک خوشی میں ہنستا اور دوسرا روتا غم میں!! آنکھ کھلی  تو سوچا نہا کر عید کے لیے نئے جوڑے کا انتخاب کروں، اور اسے زیب تن کرکے عطر میں ملبوس ہوکر عید کی نماز پڑھوں، اور دوستوں کے ساتھ ملکر خوشیاں بٹوروں، عید ہونے کی خوشی اتنی تھی کہ فورا بستر سے اٹھکر حمام تک پہچ گیا اور چند ہی منٹوں میں خوشی کی غسل سے فراغت حاصل کر لی ،پانی کی ٹھنڈک نے شاید  دل و دماغ کو ٹھنڈا کر دیا، جس سے ذہن بیتے لمحوں اور حادثات کو ازسر نو حاشیہ خیال پر لانے کا پروسس شروع کر چکا تھا جو کے چند لمحوں کی  نیند کے سبب ذہن کے پردوں سے اوجھل ہو چکا تھا ، اور آرام دہ نیند نے کچھ گھنٹوں کے لیے جسم و جاں کو آرام بخشا تھا ،پھر کیا جیسے ہی نئےجوڑے کی طرف ہاتھ بڑھایا دماغ نے فورا دل کو ایک زور کا جھٹکا دیا اور آنکھوں کے سامنے مظلوم فلسطینیوں اور غاصب و ظالم اسرائیل کے مابین ہوئے حادثات و واقعات گردش کرنے لگے  ”ان کی عید کیسی ہوگی  جو بچے اپنے والدین کو اپنی آنکھوں کے سامنے اسرائلی ظلم وجبر  کا شکار ہوتے ہوے دیکھ رہے ہیں؟ !! اب وہ کس کے ساتھ  عید پڑھنے چلیں

یہ ‏ضعف ‏کا ‏عالم ‏ہے ‏کہ ‏تقدیر ‏کا ‏لکھا

         میں لکھنے کا عادی نہیں اور ناہی کوئی لکھاری ہوں ،لیکن کبھی کبھی جبرا لکھنا ہوتا ہے ،کلیہ کی طرف سے لکھنے کا کام ملتا ہے ،نا چاہ کر بھی محض نمبرات کے لیے  قرطاس سیاہ کرنا  ہوتا ہے ،اس سال بھی اسائمنٹ لکھنا تھا ،فلسطین کے تازہ ترین حالات پر  ہی ایک چھوٹا سا مضمون قلم بند کرنا تھا جمع کرنے کی تاریخ قریب آگئی تو  قلم اٹھایا سوچا لکھوں ۔۔۔ لیکن کیا لکھوں ؟؟۔۔۔۔فلسطین ۔۔۔۔ کوئی قصہ عشق ہو تو لکھوں ،کسی شہزادی کی داستان ہو تو لکھوں ،تحریر کے لئے چاہیے کوئی سلگتا عنوان، کوئی اختلافی موضوع، یا کوئی سنسنی خیز خبر جیسے سیلیبریٹی کا قتل، سیاسی الٹ پھیر یا کوئی ایکسیڈینٹ ۔ یا پھر تحریر کے لئے حسن و عشق چاہیے۔ ہائی پروفائلڈ محبوبہ کی رنگین زلفوں کا اسیر مجنوں، محبت میں ناکام عاشق کی دیوانگی یا یک طرفہ محبت کا دردناک انجام، غزہ کے ان بھوکے ،بے گھر ،ستائے ہوئے، مظلوموں کے بارے میں کیا لکھوں ،جن پر خود ان کے اپنے منھ نہیں کھولتے ،جن پر اقوام متحدہ ترس نہیں کھاتی ،امن کے نمائندے جن کی نمائندگی نہیں کر رہے ہیں!! کسی کتاب یا مضمون کا خلاصہ کرنا ہوتا تو کرتا ،یہ ستر سالہ مظلومیت کی داستان کا خلاصہ

نہ من تنہا در یں خانہ مستم

اکیسوی صدی کی شروعات ہی کافی تیز رفتاری سے ہوئی۔  اگر اس کو ترقی کی صدی کہوں تو شاید غلط نہ ہو جہاں ہر چیز کافی تیز رفتاری سے ترقی پذیر ہو رہی ہے۔ جتنے زرائع ہر شئے کے لئے اس صدی میں ہیں پچھلی کسی  صدی میں موجود نہ تھے۔  وقت کے ساتھ ساتھ انسان نے  اپنے نا صرف طرز زندگی کو بدلا بلکے برتاو و معاملات کے طریقوں میں بھی کافی تبدیلی کی۔ گاؤں دیکھتے دیکھتے کب کسبہ اور کسبہ شہر میں تبدیل ہو گیا کسی کو احساس نہ ہوا۔ اس نئے دور نے شہر کی پوری تصویر ہی بدل دی۔ ہر ملک میں ہائی وے، سبوے، میٹرو، لگزری گاڑیاں اور موڈرن بس اب عام بات ہے۔ کیوں کہ ہر میدان نے اپنے ترقی کا دائرہ وسیع کر لیا ہے۔         لیکن اس ترقی پسند دور میں ابھی بھی ایک قوم ایسی ہے جو صدیوں سے اب تک وہیں ہے جہاں سے اس کا جنم ہوا تھا۔ اس قوم کے افراد میلے کچیلے پھٹے لباس میں کھالی جھولیاں اور آنکھوں میں ہم سے امیدیں لئے کبھی کسی ہائی وے کے موڑ پر ، کبھی میٹرو کے گیٹ پر تو کبھی بس یا ریلوے اسٹاپ پر مل جاتے ہیں۔ یہ وہ قوم ہے جن کو کوئی جانتا نہیں، جن کے پاس رہنے کو گھر ، کھانے کو روٹی اور پہننے کو لباس نہیں ہوتے۔ جن کا وجود حکو