اکیسوی صدی
کی شروعات ہی کافی تیز رفتاری سے ہوئی۔
اگر اس کو ترقی کی صدی کہوں تو شاید غلط نہ ہو جہاں ہر چیز کافی تیز رفتاری
سے ترقی پذیر ہو رہی ہے۔ جتنے زرائع ہر شئے کے لئے اس صدی میں ہیں پچھلی کسی صدی میں
موجود نہ تھے۔ وقت کے ساتھ ساتھ انسان
نے اپنے نا صرف طرز زندگی کو بدلا بلکے برتاو و
معاملات کے طریقوں میں بھی کافی تبدیلی کی۔ گاؤں دیکھتے دیکھتے کب کسبہ اور کسبہ شہر میں
تبدیل ہو گیا کسی کو احساس نہ ہوا۔ اس نئے دور نے شہر کی پوری تصویر ہی بدل دی۔ ہر
ملک میں ہائی وے، سبوے، میٹرو، لگزری گاڑیاں اور موڈرن بس اب عام بات ہے۔ کیوں کہ
ہر میدان نے اپنے ترقی کا دائرہ وسیع کر لیا ہے۔
لیکن اس ترقی
پسند دور میں ابھی بھی ایک قوم ایسی ہے جو صدیوں سے اب تک وہیں ہے جہاں سے اس کا جنم ہوا تھا۔ اس قوم کے افراد میلے کچیلے پھٹے لباس میں کھالی جھولیاں اور آنکھوں
میں ہم سے امیدیں لئے کبھی کسی ہائی وے کے موڑ پر ، کبھی میٹرو کے گیٹ پر تو کبھی
بس یا ریلوے اسٹاپ پر مل جاتے ہیں۔ یہ وہ قوم ہے جن کو کوئی جانتا نہیں، جن کے پاس
رہنے کو گھر ، کھانے کو روٹی اور پہننے کو لباس نہیں ہوتے۔ جن کا وجود حکومت کے لسٹ
میں نہیں ہوتا۔ یہ کسی سماج یا تنظیم کا حصہ نہیں ہوتے۔ انکے پاس چناو کرنے کا حق
نہیں ہوتا۔ یہ ہوتے تو ہر جگہ ہیں لیکن ہم کبھی ان سے ان کا نام نہیں پوچھتے۔ یہ
جب بھی ملتے ہیں ہم انہیں سو پچاس دے کر اپنا دامن تو چھڑا لیتے ہیں لیکن کبھی ان کو یا ان کے حالت کو ایک بہتر رخ دینے کے بارے میں کچھ سوچھنا بھی گوارا نہیں
کرتے۔
بچپن سے میں
اس قوم کا معائنہ کر رہا ہوں۔ کبھی کبھی یہ خیال
آتا ہے کہ کیا کبھی کوئی ایسی حکومت آئےگی جو اس قوم کے زندگی کو بدل سکے
یا شاید کوئی تنظیم جسے اس قوم کے ترقی کی فکر ہو۔ ہر حکومت غریبوں کو ترقی دلانے
اور بہتر زندگی مہیا کرانے کا وعدہ کرتی ہے۔ حکومت میں آنے کے بعد وہ کام بھی
کرتی ہے لیکن نا معلوم کیوں یہ قوم کبھی انکی نظروں میں کیوں نہیں آتی۔ کبھی کسی
حکومت نے نا جانے کیوں ان کو انکا گھر اور روزگار دینے کا خیال نہ کیا۔ یہ
سوال صرف حکومت سے نہیں بلکہ ہر ان بڑے بڑے تنظیموں سے بھی ہے جو غریبوں کے ہمدرد
بنے پھرتے ہیں۔
یہ
سمجھنا دشوار ہو گیا ہے کہ ان کے اس حالت
کا زمہ دار ہے کون۔ حکومت جو پورے ملک کے افراد کا ذمہ دار ہے، وہ تنظیم جو ایسے
بے بس و لاچار لوگوں کی حالت سوارنے کے لئے بنائی گئی ہیں، ہم لوگ جن کے آنکھوں
کے سامنے یہ لوگ ہمیشہ موجود تو رہتے ہیں لیکن ہمیں ان سے دامن چھڑانے ست فرصت نہیں یا یہ خود جو اپنے حالات کو بہتر بنانے کے لئے
کوشاں نہیں ہوتے۔
خیر! ان سوالوں کے جواب اگرچہ آپ کے پاس نہ ہوں لیکن ان سوالوں کو نظرانداز کرآگے بڑھ جانے سے کچھ نہیں بدلے گا۔ کیوں کہ ہم سب ہمیشہ سے یہی کو کرتے آ رہے ہیں، اس بار شائد کچھ بدلنا ہوا۔ آخر وہ ابھی ایک بہتر زندگی کے حقدار ہیں جیسے ہم اور آپ۔
ماشا ءاللہ
جواب دیںحذف کریںThanks...
حذف کریں